عید آئی خوشیاں لائی

منصور مہدی

دنیا بھر کے مسلمان ہر سال رمضان کا مہینہ مکمل ہونے پر یکم شوال کو عید الفطرمناتے ہیں۔شوال اسلامی کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے۔عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی خوشی کے ہیں ۔قبل از اسلام مدینہ کے لوگ ہر سال دو تہوار منایا کرتے تھے اس روزمدینے میں ایک جشن و طرب کا منظر ہوتا تھا۔بڑے بوڑھے بچے اور جوان نئے کپڑے زیب تن کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے ،ایک دوسرے کی دعوت کرتے ،مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے اور رنگین محفلیں سجائی جاتی تھیں۔جب رسول خدا صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں آئے اور ان تہواروں کے بارے میں معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیئے ہیں جس روز وہ خوشی کا اظہار کیاکریں، ایک عید الفطر اور دوسری عید الضحیٰ۔ عید الفطر ماہ رمضان کے روزے مکمل ہونے پر منائی جاتی ہے ۔رمضان اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے جو اللہ کی بندگی اور شکر گزاری کا مہینہ ہے جبکہ 10ذوالحج کو عید الضحیٰ اللہ کے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی راہ میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں منانے کا ارشاد ہوا ہے ۔ ذوالحج اسلامی کیلنڈر کا بارواں اور آخری مہینہ ہے۔چنانچہ مدینے کے مسلمانوں نے ان دنوں عید منانی شروع کر دی جبکہ مخالفین اپنے دنوں میں ہی اپنے تہوار منایا کرتے۔ان تہواروں کے پرانے طور طریقوں اور رسم ورواج کی بجائے اسلام نے اسے ایک ترتیب اور سادگی سے منانے کا حکم دیا۔ چنانچہ شوال کا چاند نظر آنے پرجب عید الفطر کا اعلان ہوتا تو مدینے کے مسلمانوں کے چہروں پر خوشی چھا جاتی اور وہ اللہ کے حضور اپنی بندگی پیش کرتے۔اس روز تمام لوگ صبح سویرے ہی اٹھ جاتے اور سب غسل کرتے ،دانتوں میں مسواک کرتے ،نئے یا صاف ستھرے کپڑے پہنتے اور خوشبو لگاتے جبکہ اسی دوراں گھروں میں عورتیں کوئی مخصوص کھانا پکاتیں جیسا کہ ہمارے ہاں سویاں پکانے کا رواج ہے اور ناشتہ کرنے کے بعد عید کی نماز پڑھنے جاتے جبکہ عید الضحٰ کے دن نماز اور قربانی کے بعد آکر ناشتہ کرتے تھے۔ عید کی نماز کھلی جگہ پر ہوتی تھی اور مسلمان ٹولیوں کی شکل میں جاتے تھے اور نماز شروع ہونے سے قبل فطرے کی ادائیگی کرتے یا گھر پر ہی فطرے کی رقم علیحدہ کر آتے۔نماز عید دو رکعت ادا کرنے کے بعد ایک دوسرے سے گلے ملتے ، خوشی کا اظہار کرتے اورمبارک باد دیتے اور اس کے بعد گھروں کو واپس آجاتے۔ عید کی نماز پڑھنے کیلئے ایک راستے سے جانے اور دوسرے راستے سے آنے کا کہا گیا ہے۔بچوں کو مٹھائی کھلائی جاتی اور تحفے دئیے جاتے اور ،ایک دوسرے عزیز و رشتہ دار کی دعوت کی جاتی ۔ان سب باتوں میں بڑی سادگی رکھی جاتی تھی اور غریبوں ، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو بھی اس خوشی میں شریک کیا جاتا تھا ۔وقت کے ساتھ ساتھ اسلام پھیلتا چلا گیا اور عرب کی سرحدوں سے پار دنیا کے ہرخطے میں پہنچ گیا۔


Image result for eid
افریقہ ہو یا ایشیاء،یورپ ہو یا عرب دنیا کے سب مسلمان اب بھی یکم شوال کو عید مناتے ہیں ۔ اب اپنے اپنے خطے کے مختلف رسم ورواج بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں ۔شمالی افریقہ ، ایران اور مشرق وسطی کے ممالک میںیہ دن زیادہ تر "ڈے آف فیملی" کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ دیگر ممالک میں عوامی سطح پر اس کی تقریبات منائی جاتی ہیں۔جیسا کہ پاکستان میں عید کے روز ہر گھر میں صبح کے وقت سویاں پکائی جاتی ہے اور اس کا ناشتہ کیا جاتا ہے۔ سویاں پاکستان کے علاوہ بھارت اور چلی میں بھی عید کے روز پکانے کا رواج ہے۔ہمارے ہاںعید منانے کی تیاریاں عموما پہلے ہفتے سے ہی شروع ہو جاتی ہےں اور لوگ نئے کپڑوں کی خریداری اور سلائی میں مشغول ہو جاتے ہیں ، نئے جوتے خریدے جاتے ہیں،بازاروں میں رش بڑھ جاتا ہے دکاندار اشیاءکی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے مہنگی خریداری کی جاتی ہے ۔ اب تو عید ایک نمود و نمائش کا موقع بن چکا ہے ۔مختلف کھانے پکائے جاتے ہیں اور اپنے سے چھوٹوں کو عید دی جاتی ہے اور بڑوں سے وصول کی جاتی ہے ۔یہ عیدی تحفوں کے علاوہ نقد رقم پر مشتمل ہوتی ہے ۔اس روز ہر شہر ، دیہات اور گاﺅں میں سرکس اور میلے لگتے ہیں اور یہ جشن عید ٹرو اور مرو کے نام سے تین روز منایا جاتا ہے جبکہ ایک ہفتے تک بھی منایا جاتا ہے۔عید کے روز جامع مسجدوں اور کھلے پارکوں اور گراﺅنڈوں میں نماز ادا کرتے ہیں۔بحرین میں عید کی تقریبات پانچ روز تک منائی جاتی ہیں جبکہ پندرہ رمضان سے ہی تیاریوں کا آغاز ہو جاتا ہے ۔عید کے روز ہر گھر میں مٹھائی کھائی جاتی اور ہمسایوں کے گھروں میں مٹھائی دی جاتی ہے جبکہ دوپہر کو ہر گھر میں بریانی پکائی جاتی ہے ۔ اس بریانی میں چاول اورگوشت کے علاوہ دالیں بھی ڈالی جاتی ہیں اور ہر گھر میں میٹھے کھانے بھی پکائے جاتے ہیں جبکہ گوشت کا حلوہ بھی پکایا جاتا ہے۔عراق میں بھی عید دیگر ممالک کی طرح منائی جاتی ہے ۔یہاں کے لوگ صبح نماز عید ادا کرنے سے پہلے ناشتے میںبھینس کے دودھ کی کریم اور شہد سے روٹی کھاتے ہیںجبکہ دوپہر کے کھانے میں خاندان کے افراد کی تعداد کے مطابق گوشت خرید کر یا بھیڑ ذیبح کر کے پکائی جائی جاتی ہے اور خاندان کے افراد کی دعوت ہوتی ہے ۔کالیچہ نامیٹھا گوشت بھی عید کی ایک خاص ڈش ہے جبکہ گھروں پر پیسٹریاں بھی تیار کی جاتی ہیں۔مصر میں عید کی تقریبات چار روز منائی جاتی ہیں جن کی تیاریان کئی دن پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔مصریوں میںعید کے دن ایک مخصوص قسم کے بسکٹ دوستوں اور عزیز رشتے داروں میں باٹنے کا رواج ہے۔یہ بسکٹ یہاں کی سپیشل ڈش ہے۔عید کے دن ان بسکٹوں کا ناشتہ کر کے نماز کی ادائیگی کے لئے مرد مسجدوں میں چلے جاتے ہیں اور عورتیں دوپہر کے کھانے کی تیاری شروع کر دیتی ہیں ۔ مصر میں عیدکے دن ہر گھر میں مچھلی پکانے کا رواج ہے۔فلسطین میں بھی دیگر مسلمان ممالک کی طرح عید منائی جاتی ہے نماز اور دیگر تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔


Image result for eid


اس روز ہر گھر میں (کک التمار )نامی گوشت کی مٹھی ڈش تیار کی جاتی ہے جو کافی کے ساتھ مہمانوں کو پیش کی جاتی ہے۔صومالیہ میں عید کی تقریبات تین دن تک جاری رہتی ہیں اور عید کے دن کا آغاز نماز سے شروع کیا جاتا ہے اور دوپہر کو مخصوص کھانے پکائے جاتے ہیں جن میں چاول کے ساتھ سبزیاں اور گوشت بھی ڈالا جاتا ہے اور جسے انجیرا نامی روٹی(چھوٹی اور پتلی چپاتی)سے کھایا جاتا ہے۔حلوے کے علاوہ کسٹرڈ پکایا جاتا ہے جبکہ دالیں بھی شوق سے فرائی کی جاتی ہیں۔آٹے میں بیکنگ پوڈر اور چینی ملا کر اسے گرم پانی سے گوندھا جاتا ہے اور بسکٹ بنا کر انہیں تیل میں فرائی کیا جاتا ہے۔بھارت اور چلی میں ہماری طرح ہر گھر میں سویاں پکائی جاتی ہیں اور دوپہر کو مختلف نوعیت کھانے پکائے جاتے ہیں بھارت اور پاکستان کے کھانے دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں ۔انڈونیشیا میں عید کے دن ہر گھر میں چکن ،بیف یا میٹ کی ڈش تیار ہوتی ہے مگر مچھلی نہیں پکائی جاتی جبکہ چاول سے تیارکیا ہوا کیک یہاں پر عید کی سویٹ ڈش ہے۔انڈونیشیا میں عید کی تقریبات پورا مہینہ چلتی رہتی ہیں۔ملایشیاءمیں عید کی تقریبات مالے رسم ورواج کے رنگ برنگے کپڑوں کی وجہ سے بڑی رنگین ہوتی ہیںجبکہ مختلف نوع کے کھانے پکائے جاتے ہیں۔سپیشل ڈش کے طور پر ناریل کے پتوں میں چاول پکائے جاتے ہیں جسے مقامی زبان میں کیٹوپٹ کہا جاتا ہے ۔یہ لوگ صبح سویرے لاکھوں کی تعداد میں مسجدوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ہر طرف رنگ برنگے مقامی لباس پہنے اور سروں پر ٹوپیاں لیے لوگ گھومتے ہوئے ایک عجب منظر پیش کرتے ہیں۔ملایشیاءمیں (open house) کھلے گھر کی ایک رسم ہے ۔عید کے دن ملاوی مسلمان اپنے ہمسائے اور محلے داروں کیلئے اپنے گھر کھول دیتے ہیں اور کوئی بھی شخص کسی کو ملنے چلا جاتا ہے تو اسکی خوب آﺅ بھگت کی جاتی ہے جبکہ دعوتیں بھی منعقد ہوتی ہیں۔ملایشیاءکے مسلمان عربوں کی طرز پر رومال سر پر نہیں لیتے جبکہ ایشیاءاور افریقہ میں بھی بعض لوگ عید کے دن عربوں کی طرز کے لمبے لمبے لباس پہنتے ہیں اور سروں پر رومال باندھتے ہیں جبکہ مالوی لوگ سروں پر جناح ٹائپ اپنی مقامی ٹوپی استعمال کرتے ہیں۔دیگر مسلمان ممالک کی طرح یہاں پر بھی عورتیں مسجدوں میں عید کی نماز کی ادائیگی کیلئے جاتی ہیں
مگر ان کے لئے جانے یا نا جانے کی کوئی ممانعت نہیں۔عورتیں مخصوص طرز کے سفید رنگ کے لمبے لباس پہنتی ہیں جس میں صرف ان کا چہرہ نظر آتا ہے جبکہ سر سے پاﺅں تک چھپی ہوتی ہیں۔تمام مسلمان ممالک میں عید کی تقریبات میں نماز اور دیگر اسلامی احکامات کے علاوہ ان میں مقامی رسم ورواج بھی شامل ہو چکے ہیں ، اس روزکھیل تماشوں کے علاوہ مقامی کھیلیں ہوتی ہیں اور مقابلے بھی ہوتے ہیں جبکہ تقریبا تمام مسلمان ممالک میں جوان طبقہ بھی اپنے اپنے شغل کرتا ہے اور مختلف انداز میں خوشی اور جوش و خروش کا مظاہرہ کرتا ہے۔عید کارڈ شائع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک کے کارڈ بھیجے جاتے ہیں۔تمام اسلامی دنیا میں ایران اس لحاظ سے مختلف ملک ہے کہ یہاں پر عید کی تقریبات نہائت سادگی سے منائی جاتی ہیں۔ عید کے حوالے سے ایران کی کوئی مخصوص ڈش نہیں بلکہ معمول کے مطابق گھروں میں کھانے پکتے ہیں، بڑی مسجدوں اور کھلی جگہوں پر نماز ادا کی جاتی ہے اور بعد ازاں گھروں پر سادگی سے وقت گزارا جاتا ہے۔ایران میں شیعہ مکتب فکر کے لوگ آباد ہے چنانچہ 21رمضان کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کی وجہ سے ہر شیعان علی سوگ کی کیفیت میں ہوتا ہے لہذا وہ عید کی تقریب نہایت سادگی سے مناتے ہیں۔یورپ اور امریکہ کے مسلمان بھی عید کی تقریبات نہایت مذہبی جوش وجذبے مناتے ہیں اور یہاں کی تقریبات دنیا کے تمام مسلمان ممالک کی تقریبات کی عکاسی کرتی ہیں کیونکہ یہاں پر دیگر ممالک سے آئے مسلمان اپنے ممالک کی رسم و رواج کے مطابق کھانے پکاتے ہیں اور لباس پہنتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک میں عید کا تہوار چاند نظر پر منایا جاتا ہے اور چونکہ چاند ایک ہی وقت میں تمام دنیا میں نظر نہیں آتا اس لئے عید بھی مختلف ممالک میں مختلف ایام میں منائی جاتی ہے جبکہ بعض ممالک میں دو اور تین بھی عیدیں منائی جاتی ہیں۔اس بارے میں ابھی تک کوئی ایسا طریقہ کار مقرر نہیں ہو سکا کہ تمام مسلمان ممالک میں ایک ہی روز عید منائی جا سکے۔کیونکہ عید منانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کھلی آنکھ سے شوال کا چاند نظر آئے تب عید منائی جاتی ہے۔


Related image
عید کی طرح خوشی کے تہوار تمام مذاہب میں موجود ہیںاور ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو سال میں ایک دو ایسے موقعے فراہم کرتا ہے کہ جس دن تما ہم مذہب مل کر ایک جیسی تقریبات منعقد کریں اور مذہبی فریضے ادا کریں۔تما مذاہب میں ایسی تقریبات مل کر منانے کا حکم ہوا ہے اور ان میں بلا تفریق امیر اور غریب سب کو شرکت کی دعوت دیتا ہے چنانچہ ایسے موقعوں پر تمام مذاہب کے لوگ اپنے لوگوں کو ساتھ لیکر چلتے ہیں اور ایسی ہی تعلیمات اسلام نے بھی دی ہیں۔ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی خوشنودگی کی خاطر دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرے مگر ایسے میں بعض لوگ صرف اپنے مفادات کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور مذہبی احکامات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔جیسا کہ ہمارے ملک میں یہاں کا اکثردکاندار رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیاءخوردونوش اور دیگر استعمال کی چیزوں کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں حالانکہ دیگر مذاہب کے لوگ ایسی مذہبی تقریبات کے موقع پر اشیاءسستی کر دیتے ہیں تاکہ غریب بھی ان میں شریک ہو سکے ۔ان تہواروں کا بنیادی مقصد مذہبی احکامات اورتعلیم کی تعمیل کے علاوہ تمام لوگوںکو ( شہر اور محلے کی سطح پر)نظم و ضبط اور ترتیب کے ساتھ اک جگہ اکٹھے ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے تاکہ ہم ایک دوسرے سے متعارف ہو سکےں اور ایک دوسرے کا احساس کریںاور سب کو خوشیوں میں شریک کریں۔


 

3 تبصرے:

  1. تاریخ اسلام میں ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی اوصاف وکمالات اور خدمات کی بنا پر رسول (ص) ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو بیان کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ " علی (ع) مجھ سے ہیں اور میں علی (ع) سے ہوں " کبھی یہ کہا کہ " میں علم کاشہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہے " کبھی یہ کہا " تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی(ع) ہے " کبھی یہ کہاکہ " علی (ع) کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ (ع) سے تھی" کبھی یہ کہاکہ " علی (ع) مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے"
    کبھی یہ کہ" وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں " یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفس رسول کاخطاب ملا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا جب مہاجرین وانصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر (ص)نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیااور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس جس کامیں سرپرست اورحاکم ہوں اس اس کے علی علیہ السّلام سرپرست اور حاکم ہیں یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہےافسوس ہے کہ یہ امن , مساوات اور اسلامی تمدّن کا علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت سے نہ بچ سکا اور 19ماہ رمضان 40ھ کو صبح کے وقت خدا کے گھر یعنی مسجد میں عین حالت نماز میں زہر آلودہ تلوار سے انکے سر اقدس کوزخمی کیا گیا آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتہا یہ تھی کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا . اگر میں اچھا ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا , کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں , اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے , دو روز تک علی علیہ السّلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت واقع ہوئی امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام نے تجہیزو تکفین کی اور نجف کی سرزمین میں انسانیت کے عظيم تاجدار کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کردیا

    جواب دیںحذف کریں
  2. تاریخ اسلام میں ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی اوصاف وکمالات اور خدمات کی بنا پر رسول (ص) ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو بیان کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ " علی (ع) مجھ سے ہیں اور میں علی (ع) سے ہوں " کبھی یہ کہا کہ " میں علم کاشہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہے " کبھی یہ کہا " تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی(ع) ہے " کبھی یہ کہاکہ " علی (ع) کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ (ع) سے تھی" کبھی یہ کہاکہ " علی (ع) مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے"
    کبھی یہ کہ" وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں " یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفس رسول کاخطاب ملا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا جب مہاجرین وانصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر (ص)نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیااور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس جس کامیں سرپرست اورحاکم ہوں اس اس کے علی علیہ السّلام سرپرست اور حاکم ہیں یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہےافسوس ہے کہ یہ امن , مساوات اور اسلامی تمدّن کا علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت سے نہ بچ سکا اور 19ماہ رمضان 40ھ کو صبح کے وقت خدا کے گھر یعنی مسجد میں عین حالت نماز میں زہر آلودہ تلوار سے انکے سر اقدس کوزخمی کیا گیا آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتہا یہ تھی کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا . اگر میں اچھا ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا , کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں , اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے , دو روز تک علی علیہ السّلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت واقع ہوئی امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام نے تجہیزو تکفین کی اور نجف کی سرزمین میں انسانیت کے عظيم تاجدار کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کردیا

    جواب دیںحذف کریں
  3. بچوں کے لئے ابراہیم علیہ السلام کی کہانی

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.