پولیس تشدد
پاکستان میں پولیس تشدد کیوں کرتی ہے؟
پولیس کا محکمہ ہمیشہ سے ہی اپنے پر تشدد رویئے کے باعث خوف و دہشت کی علامت رہا ہے۔ دوران تفتیش اس قدر ظالمانہ اور سفاکانہ طریقے اختیارکئے جاتے ہیں کہ جن کے ذکر سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جن میںچھترمارنا، ڈانگ پھیرنا، چھت سے لٹکانے کے مختلف طریقے، رسہ پر چڑھانا، پنکھا چلانا، پاﺅں اور سر کو رسی سے باندھ کر ایک کر دینا، شلوار میں چوہے چھوڑنا، ٹائر ڈالنا،گوبر لگانا، ٹانگیں رسی سے باندھ کر چوڑی کرنا، جسم کے نازک حصوں کو مختلف طریقوں سے ضرب دے کر تکلیف پہنچا نا، بان لگانا، سگریٹ سے داغنے کے علاوہ غلیظ گالیاں دینا مقدمہ میں ملوث افراد کے اہل خانہ کو گرفتار کر کے ان کی تذلیل و بے حرمتی کرنا، خواتین ملزموںکی عزت لوٹناجیسے طریقے شامل ہیں۔ پولیس تشدد کے واقعات میں پنجاب پولیس پہلے نمبر پر ہے جبکہ سندھ پولیس دوسرے نمبر پر ہے۔
مددگار رےسرچ اینڈ ڈیٹا بیس سینٹر نے پولیس کے ظلم و تشدد پر مبنی اےک تحقیقی رپورٹ مرتب کی جس کے مطا بق سال 2009 (جنوری تاجون) پاکستان بھر مےں عورتوں بچوں اور مردوں پر پولیس کی جانب سے کئے جانے والے جسمانی تشدد و حراساںکرنے کے 695واقعات رونما ہوئے جن میں 45 لڑکےوں، 174 لڑکوں، 198 خواتین اور 278 مرد حضرات کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ چاروں صوبوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبہ بلوچستان میں41، پشاور98 ،پنجاب 324اور صوبہ سندھ میںکل232 واقعات منظر عام پر آئے۔ملک بھر میں رونما ہونے والے پولیس تشدد کے واقعات میں سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں رپورٹ ہوئے اورصوبہ بلوچستان و صوبہ سرحد سے رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد انتہائی کم ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں رائج قبائلی نظام ،پنچائتی فیصلوں کی بھرمار اور جرگہ سسٹم کا انعقاد تصور کی جاتی ہے۔تشدد کے ان واقعات میں قتل کے87 ، زیادتی کے99 ، غیر قانونی حراست کے 124 ،جسمانی تشدد کے287 ،حراساں کرنے کے 98واقعات رونما ہوئے۔259 متاثرہ افراد کو ملک بھر کے مختلف تھانوں مےں دوران حراست بہیمانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا گیاعلاوہ ازےں 98 افراد کو انکے گھروںپر،103 افراد کو تفریحی مقامات پر،125 افراد کو پرائیویٹ ٹا رچر سیلز میں اور110 افراد کو دیگر ملکی مقامی جیلوں میںتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جن خاص خاص شہروںمیں پولیس تشدد کے سب سے زیادہ واقعات رونماہوئے ان میں ملتان سر فہرست رہا اس کے بعدلاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، کراچی، سکھر، خےرپور، نواب شاہ ، حےدرآباد اور گجرانوالہ شامل ہےں۔
جبکہ گذشتہ دس سالوں میںاعداد و شمار کے مطابق:جنوری 2000 تا جون 2009 کے دوران پاکستان بھر سے پولیس تشدد کے کل 10421 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اعداد و شمار کے سالانہ جائزے کے مطابق 2000 میں 231 ، 2001 میں555 ، 2002 میں996، 2003 میں 838، 2004 میں1260، 2005 میں1356، 2006 میں1662، 2007 میں1723، 2008 میں1105 اور 2009 جنوری تا جون تشدد کے کل695 واقعات رونما ہوئے جن میں سے 1457 خواتین، 7885 مرد، 423 لڑکیاں اور656 متاثرہ معصوم لڑکے شامل ہیںجو پولیس کے وحشیانہ تشدد کانشانہ بنے۔صوبائی لحاظ سے صوبہ بلوچستان میں) 189 واقعات (، صوبہ سرحد مےں ( 711)، صوبہ پنجاب میں ( 6250) ا ور صوبہ سندھ میں(3271) واقعات رونما ہوئے۔پولیس تشدد کی خاص خاص وجوہات میں سب سے بڑی وجہ رشوت طلب کرنا ہے جبکہ پولیس کاروائی کے دوران بہانہ بنا کر مارنا پیٹنا، جعلی پولیس مقابلوں مےں ہلاک ےا زخمی کرنا، چیکنگ کا بہانا بنا کر مارنا اورمختلف نوعیت کے من گھڑت مقدمات مےں پھنسانے کی کوشش کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
ہمارے معاشرے مےں لوگ بدنامی اور خوف کے باعث تھانوں میں تشدد کے واقعات کو رپورٹ کروانے سے ہچکچاتے ہیں اور پولیس کے غیر انسانی سلوک اور عدالتوں کے طویل وقتی فیصلوں کے باعث لوگ عدالتوں سے۔ اس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اخبارات مےں رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد حقیقت میں رونما ہونے والے واقعات سے نہایت کم ہوتی ہے وقوع پزیر واقعات کاصحیح اندازہ لگانا مشکل ہے کہ روزانہ کتنے افراد پولیس کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں اور پولیس مظالم سے نبرد آزما ہیںکیونکہ موجودہ دور میں جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی روز کا معمول بن کر رہ گیا ہو وہاںجائز انسانی حقوق کا حصول نہایت مشکل ترین امربن کر رہ گیا ہے جس سے مکمل طور پر واضح ہوتا ہے کہ پاکستان مےں انسانی حقوق کے تحفظ کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔
انسان کی عزت ذاتی حرمت، مساوی اور نا قابل انتقال حقوق کو تسلیم کرنادنیا میںآ ّزادی وانصاف اور امن کی بنےاد سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کا عالمی منشور برائے انسانی حقوق 30 آرٹیکلز پر مشتمل ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کو بغیر کسی امتیاز کے بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کا حق دیتا ہے۔پاکستان کا شمار ان ممالک مےں ہوتاہے جس نے اس منشور پر دستخط اور اسکی توثےق کی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل 7 مےں درج ہے کہ۔ ”قانون کی نظر مےں سب برابر ہیں اور بغیر کسی تفریق کے قانون کے اندر امان پانے کے برابری کے حقدار ہیں“۔ اس اعلان کے خلاف جو تفریق کی جائے ےا جس تفریق کے لئے ترغیب دی جائے اس سے سب برابر کے بچاﺅ کے حقدار ہیں۔ آرٹیکل 9 کے مطابق ”کسی شخص کو محض حاکم کی مرضی پر گرفتار،نظر بند یا جلا وطن نہیں کیا جائے گا“۔ آرٹیکل10 کے مطابق”ہر شخص کو یکساں طور پر حق حاصل ہے کہ اس کے حقوق و فرائض کا تعین ےا اس کے خلاف کسی عائد کردہ جرم کے بارے مےںمقدمہ کی سماعت،آزاد اور غیر جانبدارعدالت کے کھلے اجلاس مےں منصفانہ طریقے پر ہو“۔ آرٹیکل 11 کے مطابق ”ایسے شخص کو جس پر کوئی فوجداری کا الزام عائد کیا جائے ، اسے خود کوبے گناہ ثابت کرنے کاحق حاصل ہے، تاوقتیکہ اس پر کھلی عدالت مےں قانون کے مطابق جرم ثابت نہ ہو جائے ۔
سابق ڈی آئی جی پنجاب پولیس پرویز اکبر لودھی کا کہنا ہے کہ پولیس ایکٹ کی دفعہ156کے تحت تشدد کرنے والے پولیس ملازمین کو 3سال کی قید ہو سکتی ہے جبکہ تعزیرات پاکستان کے تحت پولیس تشدد، زخم لگانے یا حبس بے جا میں رکھنے کی سزا بھی موجود ہے اورکسی بھی زیر حراست یا گرفتار ملزم پر تشدد قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ جرم ثابت ہونے پر ذمہ دار پولیس افسر یا اہلکار کو پانچ سال قید اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے تا ہم تشدد کا جرم قابل راضی نامہ ہے۔ لاہور پیپلز لائرز فورم کے صدر شاہد حسن ایڈووکیٹ کے مطابق عدالتوں اور پولیس و مجاز افسان کے پاس پولیس تشدد کی ہر ماہ پانچ سو سے زیادہ شکایات موصول ہوتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والا ادارہ پولیس قانون کی حکمرانی اور عوامی مفاد کے نام پر سب سے زیادہ قانون شکنی پولیس تشدد کی صورت میں کرتا ہے۔ پولیس امن وامان برقرار رکھنے سے لیکر تفتیش تک کے امور نمٹانے کیلئے تشدد کرتی ہے۔ تشدد پولیس کے پاس ایک ایسا حربہ ہے جس کے ذریعے کسی بھی ملزم سے کوئی جرم منوایا جا سکتا ہے۔ پنجاب پولیس کے تربیتی اداروں میں بھی پولیس افسروں اور اہلکاروں کو تفتیش کیلئے سائنسی بنیادوں پر تربیت دینے کی بجائے روایتی طریقوں سے تشدد اور بد تمیزی کا سبق دیا جاتاہے۔ جب پولیس افسران و اہلکار اپنی پیشہ وارانہ تربیت مکمل کر کے فیلڈ میں آتے ہیں تو وہ اپنے بڑوں سے تفتیش کا ایک ہی گر سیکھتے ہیں کہ دوران تفتیش مغز ماری اور محنت کرنے کی بجائے ملزم کو چھتر لگاﺅ اور اس سے اپنی مرضی کا بیان لیکر اور جرم منوا کر چالان کر دو۔ مقدمہ کے اندارج کے بعد تفتیشی افسر جب ملزم کو گرفتار کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ لیتی ہے تو ہمارے ہاں جسمانی ریمانڈ کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اب پولیس کو ملزم پر تشدد کرنے کا قانونی حق مل گیا ہے۔ حالانکہ پولیس کو کسی بھی زیر حراست ملزم پر تشدد اور خاص طور پر سرعام تشدد کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ تفتیشی افسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ مہارت سے جرام کا سراغ لگائے۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس نے تو بانی پاکستان کے پڑ نواسے کو کراچی کے ایک تھانے میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ شہباز شریف کے پہلے دور میں گورنر سلمان تاثیر کو مصطفیٰ آباد تھانے میں چھتروں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ نیلام گھر والے طارق عزیز کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی فیصل آباد تھانے میں چھترول ہوئی۔ صدر آصف علی زرداری پر کراچی میں پولیس تشدد ہوا اور ان کی زبان کاٹ دی گئی۔ جاوید ہاشمی، ملک قاسم ، رانا نذر الرحمان، کی چھترول ہوئی۔ امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کو نیم برہنہ کر کے ان کی تلاشی لی گئی۔ جبکہ لاتعداد سیاسی ورکروں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے سابق آئی جی پنجاب عباس خان کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ ادوار میں پولیس میں بھرتی کیلئے سیل لگی رہی اور اسٹنٹ سب انسپکٹر ، سب انسپکٹر اور انسپکٹر کے عہدے پر بھرتی کیلئے ریٹ مقرر تھے چنانچہ پولیس میں ہزاروں جرائم پیشہ افراد بھرتی ہوئے جنہوں نے پولیس فورس کو بدنام کر دیا۔ جبکہ پولیس کے محکمہ میں چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی پولیس کے تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے جیسا کہ وزارت داخلہ کے کرائسز مینجمنٹ کو موصول ہونی والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پنجاب اور سندھ کے تھانوں میں قائم شکایات سیل کی رپورٹ پر تیرہ اہلکاروں کو شوکاز نوٹس اور متنبہ کرنے کی سزائیں دی گئی ہیں جبکہ اس عرصے کے دوران بلوچستان اور صوبہ سرحد سے پولیس تشدد کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ حالانکہ پولیس کے خلاف تو سینکڑوں درخواستیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔
پولیس تشدد کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان نے از خود نوتس لیتے ہوئے جمعہ کے روز پشاور میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس اعجاز احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے چنیوٹ میں پولیس تشدد کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پولیس کے تشدد سے لگتا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون ہے۔ ذمہ دار اہلکاروں کو صرف معطل کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ ان کے خلاف کاروائی ضروری ہے۔ مذکورہ اہلکاروں کو ابھی تک لاک اپ میں بند کیوں نہیں کیا گیا۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں اور ایف آئی آر درج ہوئیں۔ انہوں نے چاروں صوبوں کے آئی جی پیز ، وزارت داخلہ، اٹارنی جنرل اور ایدووکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی کہ وہ بتائیں کہ ان مقدموں میں اب تک کتنوں کو سزا ہوئی اور کتنے معطل ہوئے۔ ان تمام کی ایک جامع رپورٹ بنا کر عدالت میں پیش کی جائے اور کہا کہ سرعام تشدد کا نشانہ بنانا بنیادی انسانی حقوق اور وقار کے منافی ہے۔ کاروائی صرف ماتحت اہلکاروں کے خلاف ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں ملوث افسران کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔ بعد ازاں عدالت نے حکومت پنجاب کی انکوائری کمیٹی کی مکمل رپورٹ 11مارچ کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی طلب کر لیا۔
جبکہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کا بھی اس حوالے سے کہنا ہے کہ زیر حراست ملزموں پر غیر انسانی تشدد جیسے واقعات پولیس کے نظام میں احتساب کے خاتمے ، اعلیٰ سطح پر نگرانی کا نہ ہونااور تھانے کے نظام کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ماضی میں ایسے واقعات پر ذمہ داروں کو قرار واقعی سزائیں دی جاتیں تو اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوتے۔ ایسے واقعات کی جس قدر مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ کسی مہذب معاشرے میں قانون کی حفاظت کرنے والوں سے اس طرح کی قانون شکنی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ انھوں نے کہا کہ حافظ آباد اور چنیوٹ میں سامنے آنے والے واقعات پولیس کے روایتی طرز فکر کی عکاسی کرتے ہیں اور پنجاب حکومت گذشتہ دوسال سے اس طرز فکر پر مبنی تھانہ کلچر میں تبدیلی کیلئے کوشاں ہے۔ ۔ وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ تشدد کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی کی جائے گی۔ انھوں نے سیاسی نمائندوں و پولیس پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دینے کی ہدایت کی جو روایتی تھانہ کلچر میں تبدیلی کیلئے مختصر و طویل المعیاد اقدامات کے حوالے سے اپنی سفارشات جلد پیش کرے گی۔
جبکہ آئی جی پنجاب پولیس طارق سلیم ڈوگر کا کہنا ہے کہ پولیس کا جذبہ چاہے جتنا بھی نیک ہو پولیس کو غیر قانونی کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بعض اوقات پولیس اہلکاروں کو مدعی اور افسروں کے دباﺅ کے باعث بھی ملزموں پر تھرڈ ڈگری تشدد کرنا پڑتا ہے تاہم آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ تفتیش کیلئے تشدد کے علاوہ بھی بہت سے طریقے ہیں جو زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔ پولیس تشدد کو روکنے کیلئے لاہور سمیت صوبے کے اضلاع میں پولیس پبلک کمیٹیاں بنائی جارہی ہیں۔ آئی جی نے کہا کہ شہریوں یا جرائم پیشہ افراد پر تشدد کرنے والے واقعات میں ملوث اہلکاروں اور افسروں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوں گے۔ کیونکہ ان واقعات سے پولیس کا احترام ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ مگر ان واقعات کو انفرادی سمجھا جائے اور پوری پولیس فورس کو اس کا قصوروار نہ سمجھا جائے۔
لاہور کے رہائشی محمد اکرم، غلام رسول، غلام حیدر ،حبیب اللہ اور دیگر کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کیلئے پولیس تشدد کیس بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا اب عدالتیں عوام کو پولیس کے ظالمانہ روپے سے نجات دلا سکیں گی یا پولیس کی من مانیاں یونہی جاری رہےں گی۔
zaberdast
جواب دیںحذف کریں