ہندو ہٹ دھرمی , کیا بابری مسجد کا تنازعہ حل ہو پائے گا؟
منصور مہدی
الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بینچ کے تین ججوں نے بالآخر بابری مسجد کا فیصلہ 30ستمبر2010بروزجمعرات کی شام ساڑھے چار بجے سنادیا۔ بابری مسجدکے حق ملکیت کے اس مقدمے کا یہ ایک غیر متفقہ فیصلہ ہے جس میں دو ججوں کے مقابلے میں ایک جج کا اختلافی فیصلہ بھی شامل ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان اور دیگر ممالک کے میڈیا سمیت بیشترقانونی حلقوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین کے ہاں زیر بحث ہے۔اس بحث میں جہاں بھارت کے بہت سے افراد کا یہ کہنا ہے کہ عدالت نے منطق ،قانون، شواہد اور حقائق کے بر عکس عقیدت کو فوقیت دی ہے وہاں کچھ افراد اس خیال کے بھی حامل ہیں کہ یہ فیصلہ ان معنوں میںقابل ستائش ہےکہ عدالت نے ایک لائحہ عمل کی نشاندہی کر دی ہے اور اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو ممکن ہے کہ ایک ایسا مسئلہ حل ہو جائے جو 1853میں ایودھیا کے پہلے مذہبی فسادات سے شروع ہوا تھا۔ جس کا بصورت دیگر حل ہونا بے حد مشکل ہے۔ لیکن اس فیصلے سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہہمیشہ کسی بھی تنازعہ کے حل کیلئے عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے اور عدالت کا کوئی بھی فیصلہ دو ٹوک ، حقائق و شواہد اور منطق و قانون کے مطابق ہوتا ہے اور اسے ہی فیصلہ کہا جاتا ہے مگر یہ افسوس کی بات ہے کہ بابری مسجد کے اس فیصلے میں عدالتی انصاف کے تقاضوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا اور حقائق کے بر عکس عقیدے کو مد نظر رکھا گیا۔ عدالت کو اس پیچیدہ مسئلے کے تمام تر مضمرات کوپیش نظر رکھتے ہوئے تاریخی حقائق و شواہد کی روشنی میںاس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ منتازعہ قطعہ اراضی پر مالکانہ حق کس کا ہے ، ہندووں کا ہے جیسا دعوی کیا جا رہا ہے یا مسلمانوں کا ؟ مگر عدالت کے روبرو مقدمے میں اصل سوال کا فیصلہ ہی نہیں کیا گیا ۔
لکھنو بنچ کے تین ججوں جسٹس سدھیر اگروال، جسٹس صبغت اللہ اور جسٹس دھرم ویر شرما کے روبرو دراصل ایک ہی نوعیت کے یہ چار مقدمے تھے ۔ جو مختلف عدالتوں میں تقریباً ساٹھ سال کا سفر کر کے اپریل 2002 میںالہ آباد ہائیکورٹ پہنچے تھے۔ان چاروں مقدمات میں چونکہ ایک ہی نوعیت کے سوال اٹھائے گئے تھےلہذا عدالت نے اسے ایک ہی مقدمہ قرار دیکر سنا۔ بھارت کی عدالتی تاریخ کا یہ پہلا مقدمہ ہے کہ جس میں آثار قدیمہ کے ماہرین کو بھی طلب کیا گیا اور ان کی رپورٹوں کو عدالتی ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔ دونوں فریقین کی طرف سے بابری مسجد کی تاریخ ، دستاویزات، ایودھیا شہر کی قدیم تاریخ پر لکھے گئے مکالے اور تحقیق کو بھی زیر بحث لایا گیا۔الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جس جگہ اس وقت عارضی مندر ہے وہی جگہ رام کی جنم بھومی ہے اور وہ مندر کی ہی جگہ ہے۔فیصلے کے مطابق اس جگہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائیگا جس میں سے ایک رام جنم بھومی کو، ایک نرموہی اکھاڑا کو اور ایک حصہ مسلمانوں کو ملے گا۔
عدالت کے سامنے ان مقدمات میں سب سے اہم اور پہلا سوال یہ تھا کہ کیا وہ متنازعہ جگہ رام کی جائے پیدائش تھی اور جیسا کہ عدالتی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ وہ متنازعہ جگہ رام کی ہی جائے پیدائش ہے اور اس کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا متنازعہ جگہ مسجد تھی اور اسے کب اور کس نے بنایاتھا؟اس نقطے پر عدالت نے کہا کہ متنازعہ عمارت بابر نے بنائی تھی ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ عمارت اسلام کے اصول کے خلاف تعمیر کی گئی تھی اس لئے یہ کبھی مسجد کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی ہے۔تیسرا اہم سوال یہ تھا کہ کیا مسجد کی تعمیر ہندوں کے کسی مندر کو توڑ کر کی گئی تھی؟ اس سوال کے جواب میں عدالت نے کہا کہ بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس متنازعہ جگہ پر ہندووں کی ایک عمارت تعمیر تھی جس کو توڑ کر ہی متنازعہ عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ عدالت کے روبروچوتھا اہم سوال یہ تھا کہ کیا اس عمارت میں 22اور23 دسمبر1949کی رات کو مورتیاں یعنی مجسمے رکھے گئے تھے؟ اس سوال کے جواب میں عدالت نے کہا یہ درست ہے کہ پوجنے کے لئے بت اسی رات کو گنبد کے اندر رکھے گئے تھے۔ آخر میںعدالت کے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ متنازعہ جگہ جس کا مقدمہ ہے اس کی حالت کیا ہونی چاہئے؟ اس پر عدالت نے کہا کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ متنازعہ جگہ رام چندر کی پیدائش کا مقام ہے کیونکہ ماضی میں وہاں پر رکھی مورتیوں کی پوجا کے لئے ہندووں کو عام اجازت رہی ہے اور اس کی زیارت کے لئے ہندو عقیدت مند آتے بھی رہے ہیںاور متنازعہ اراضی کے مرکزی اور بیرونی حصےمیںغیر معینہ مدت سے ہندوں کی پوجا پاٹ بھی ہوتی رہی ہے لہذا یہ متنازعہ جگہ مسجد نہیں ہو سکتی۔ اس فیصلے سے عدالت نے ایک طرفبابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کر دیا ہے تو دوسری طرف متازعہ زمین کا ایک حصہ دیکر مسلمانوں کو ’خوش کرنے کی کوشش‘ بھی کی ہے۔ اس فیصلے کو بھارت کے مسلمانوں نے مسترد کر دیا ہے اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عدالت میں پیش کیے گئے تاریخی حقائق کے مطابق بابری مسجد 1527 کے لگ بھگ مغل بادشاہ بابر کے دربار سے منسلک ایک شخص میر باقی نے تعمیر کرائی تھی۔ جبکہ1528میں ہی ہندووں نے دعویٰ کر دیا کہ اس مقام پر پہلے رام کا مندر تھا اور یہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے اور اسے گرا کر مسجد تعمیر کی گئی ہے۔مورخین کے مطابق مندر مسجد کے تنازعہ نے پہلی مرتبہ 1853 میں تشدد کی شکل اختیار کی۔1859میںجب کی برطانوی نو آبادیاتی حکومت نے عبادت کی جگہ کو تقسیم کرتے ہوئے مسجد کے اندرونی احاطے میں مسلمانوں کو باہر کے احاطے میں ہندوں کو عبادت کی اجازت دی گئی۔پھر1949 میںمسجد کے اندر سے رام کی مورتی کی دریافت نے ایک بار پھر حالات خراب کر دیے اور ایودھیا میں مذہبی فسادات شروع ہو گئے جس پر حکومت نے اسے متنازعہ مقام قرار دے کریہ جگہ بند کروا دی۔1984میں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے رام کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کے لیے تحریک کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا۔ 1986 میں ضلعی عدالت کی جانب سے ہندووں کو متنازعہ مقام پر پوجا کی اجازت دیے جانے پر مسلمانوں کی جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اور کمیٹی کی طرف سے حقوق ملکیت اور جگہ واگزار کرنے کا مقدمہ عدالت میں دائر کیا گیا۔1989 وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر بنانے کیلئے بنیاد رکھ دی جس پھر پھر ایک بار ایودھیا میں فسادات شروع ہو گئے۔1990 میں وشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا ۔ 1991 میں جس بھارتی صوبے اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت آئی تو مندر مسجد کا مسئلہ ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا اور1992 میںوشوا ہندو پریشد کے حامیوں نے مسجد گرا دی جس کے ساتھ ہی فسادات شروع ہو گئے جس میں تقریباً دو ہزار کے قریب افراد مارے گئے جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔
الہ آباد ہائیکورٹ میںاپریل 2002 سے سنے جانے والے مقدمے میںوشوا ہندو پریشد کی طرف سے دی گئی ایک متفرق درخواست میںجنوری 2003 میںبھارت کے محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرینکو طلب کیا گیا اور انھیں متنازعہ جگہ پر کھدائی کا حکم دیا گیا۔اگست2003 میںمحکمہ آثارِ قدیمہ کی جانب سے ایک رپورٹ ہائیکورٹ میں پیش کی گئی جس میں زمینی حقائق کے علاوہ رپورٹ کی تمہید میں مذہبی روایات بیان کی گئی جس کے مطابق شمالی ہند کی ایک ریاست ایودھیا (اودھ) پر سورج بنسی خاندان کا ایک کھتری راجا دسرتھ حکومت کرتا تھا۔ اسکے چار بیٹے، رام چندر ، لکشمن ، شتروگھن اور بھرت تھے۔ ہندو عقائد کے مطابق بابری مسجد سے ملحقہ2.7ایکٹر کا رقبہ راجہ سرتھ کا محل تھا اور مسجد کی جگہ پر راجہ کی رہائش گاہ تھی جہاں رام نے جنم لیا تھا اور بعد ازاں وہاں ایک مندر بنایا گیا۔آثار قدیمہ کی رپورٹ کے مطابق مسجد کی جگہ کھدائی سے ایسے آثار ملے ہیں کہ جن سے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کبھی مندر تھا لیکن اسی رپورٹ کھدائی کے دوران جانوروں کی ہڈیاں اور سرخ چونے کی چنائی کے شواہد بھی ملے ہیں جو مسلمانوں کی موجودگی کی ایک علامت ہے ۔لیکن فیصلے کے دوران اسے نظر انداز کیا گیا اور مذہبی روایات کو مدنظر رکھا گیا۔
اس رپورٹ کے جواب میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر فریقین اور محقیق نے نہ صرف زبانی بلکہ دستاویزی، قانونی، مذہبی اور ادبی کتابوں سے بھی ہزاروں صفحات پر مشتمل حوالے دئے۔جن کے مطابق رام کا باپ راجہ سرتھ ایودھیا نہیں اجودھیا( اجودھن موجودہ پاکپتن) کا حکمران تھا اور جب راجہ سرتھ نے رام کی بجائے اپنے دوسرے بیٹے بھرت کو ولی عہد بنایا تو رام کو بن باس دے دیاتو رام اپنی بیوی اور ایک بھائی لکشمن کے ساتھ بھارت کے موجودہ صوبے گجرات کی طرف چلا گیا۔ جہاں اسکی بیوی کو سری لنکا کے حکمران راون نے اغوا کر لیا ، وہاں سے چھڑانے کے بعد جب رام باپ کی وفات کے بعد اجودھیا پہنچا تو اس وقت کے مذہبی پیشواوں نے سیتا پرغلط الزامات لگا کر ملک سے باہر نکال دیا،تب سیتا نے موجودہ شہرلاہور کے علاقے اچھرہ میں ٹھہری جہاں بھیرستان نامی مندر بنایا گیا جس کے آثار اب بھی موجود ہیں اور یہی سیتا کے دو بیٹے پیدا ہوئے جن میں بڑے بیٹے لو کے نام سے اس آبادی کو پکارا جانے لگا۔ شاہی قلعہ لاہور کے اکبری دروازے سے اگر داخل ہوا جائے تو بائیں مڑتے ہی سامنے برآمدے میں بائیں جانب لوہے کے جنگلے والے گیٹ کے اندر لو کی سمادھی ہے ۔ جس کی بہت عرصے بعد مرمت بھارت کے وزیر اعظم واجپائی کی آمد سے قبل کی گئی۔
مگر ان سب باتوں کے باوجود عدالت نے کسی ایک فریق کے حق ملکیت پر فیصلہ کرنے کی بجائے بابری مسجد کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ دو حصے ہندووں کو ایک حصہ مسلمانوں کو دے دیا۔بابری مسجد کے حق ملکیت کا مقدمہ بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں ایک ایسا مقدمہ ہے، جس کی وجہ سے ملک میں کئی مرتبہ سیاسی اور سماجی ہلچل پیدا ہو چکی ہے۔اب ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کا فیصلہ ہونے میں بھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران بھی کئی ایسے مراحل آئے کہ جب کچھ افراد کی طرف سے اس معاملے کوعدالت کے باہر آپس میں مل کر حل کرنے پر زور دیا گیا مگر اس تنازعے کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئی اور اب عدالت کے اس فیصلے سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ آج کا فیصلہ اس معاملے میں ایک قانونی پڑاو ہےکیونکہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے۔
اس فیصلے کو سنانے سے قبل ملک بھر میں سکیورٹی کے انتہائی غیر معمولی انتظامات کئے گئے تھے۔ صرف ریاست اترپردیش میں ہی دو لاکھ سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ فرقہ ورانہ لحاظ سے ملک کے تمام شہروں میں نیم فوجی دستوں کا گشت بڑھا دیا گیا ۔ مرکزی حکومت نے مدد کے لئے فضائیہ کوبھی تیار رہنے کو کہہ دیااور ضرورت پڑنے پر فوج اور پیرا ملٹری فورسز کو بھی کو تیار کیا جا چکا تھا۔ بھارت میں اندیشہ تھا کہ فیصلے کے جواب میں ایک خوفناک فسادات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا مگر اس غیر متوقع اور قانونی ضابطوں کے برعکس فیصلے نے شورش نہ ہونے دی جس پر انتظامی حوالوں سے بھارتی حکومت تو مطمئن ہے مگر بھارت کے قانون، تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین اس فیصلے سے اختلاف کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کا معاملہ دراصل زمین کے صرف ایک ٹکڑے کانہیں ہے بلکہ ہندووں اور مسلمانوں دونوں کے مذہبی اعتقاد کا معاملہ ہے جبکہ سب سے اہم یہ کہ یہ آئین کے بنیادی اصولوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس فیصلے سے بھارت کے سیکولر نظام کو زک پہنچی ہے اور عدلیہ میں قانون اور حقائق کی بجائے مذہبی عقائد کو جگہ ملنی شروع ہو جانے کا اندیشہ ہے جو نظام عدل کے خلاف ہے۔ اس غیر متوقع اور غیر اطمینان بخش فیصلے کو رام جنم بھومی تحریک سے جڑے لوگوں اور اس کے ہمدردوں کے علاوہ سماج کے ایک مخصوص طبقے کی بھی حمایت بھلے ہی حاصل ہو مگریہ فیصلہ قانون اور عقیدے کو خلط ملط کرکے مفاہمت کی کوشش اور عدالتی ثالثی کے مترادف ہے جسے کبھی بھی عدالتی فیصلے نہیں کہا جا سکتا۔ شاید اسی وجہ سے بھارت کے ایک ریٹائرڈ جسٹس لبراہن نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا فیصلہ ہمیشہ درست ہوتا ہے لیکن الہ آباد ہائیکورٹ نے اس مقدمے کا کوئی فیصلہ کیا ہی نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں