بھارت میں سیکیولرازم کی جگہ ہندو راشٹریہ نے لی ہے، وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب

 


وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کورونا وائرس سے دنیا کو درپیش مسائل پر بات کی جبکہ بھارت کی حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات سے بھی دنیا کو آگاہ کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس میں آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہمجھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ایک بار پھر خطاب کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے، میں والکن بوسکر کو جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس کی صدارت کے لیے منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور سبکدوش صدر تیجانی محمد بانڈے کی خدمات کو سراہتا ہوں اور خاص کر کووڈ-19 بحران کے دوران ان کا کردار بہترین رہا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس مشکل وقت میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی قیادت کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ جب سے میری حکومت آئی ہے مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان میں بنیادی سطح پر تبدیلیاں لائی جائیں، ہمارے نئے پاکستان کا تصور بھی پیغمبر خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی قائم کردی ریاست مدینہ کے ماڈل پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی ریاست جہاں انصاف اور انسانی اقدار پر مبنی ایسا معاشرے کا قیام ہو جہاں حکومت کی تمام پالیسیوں کا محور اپنے شہری اور ان کو غربت سے نکالنے کے لیے ہوں اور منصفانہ نظم و نسق قائم کرنا ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں امن و استحکام کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد اپنے ہمسائیوں کے ساتھ امن اور تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہے۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا75 واں اجلاس انتہائی اہم سنگ میل ہے کیونکہ یہ دنیا میں واحد ادارہ ہے جو امن و استحکام کے حصول میں مدد کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اقوام متحدہ کی وجہ سے یہ سمجھنے کا موقع ہے کہ ہم مل کر اپنے لوگوں کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ آج ورلڈ آرڈر کے بنیادی اہداف، طاقت کے یک طرفہ عدم استعمال یا خطرہ،لوگوں کے لیے حق خود ارادیت، مسادی خود مختاری اور ریاستوں کی علاقائی سالمیت، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، بین الاقوامی تعاون جیسے تصورات کو سوچ سمجھ کر ختم کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی معاہدوں کا تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کونظر انداز کیا جارہاہے، بڑی طاقتوں کے درمیان از سر نو کشیدگی کے باعث اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہو رہی ہے، تنازعات بڑھ رہے ہیں اور ان میں شدت آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں فوجی قبضے اور غیر قانونی الحاق کے ذریعے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبایا جارہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق انسان جوہری جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے، ماحولیاتی تبدیلی اور آمرانہ حکومتوں کے بڑھتے ہوئے رجحان گزشتہ صدی میں پیش آنے والی پہلی اور دوسری جنگ کے مقابلے میں زیادہ خطرے کا باعث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے تباہ کن حالات سے بچنے کے لیے مل کر آگے بڑھنا ہوگا، ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں قانون اور اصولوں کے مطابق تعاون ہونا چاہیے اور آپس میں کسی صورت ٹکراؤ نہ ہو، ہم پوری شدت کے ساتھ عالمی سطح پر متفقہ لائحہ عمل کی حمایت کرتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.