جسم فروشی ہر معاشرے کا حصہ ہے؟
منصور مہدی.....
ہر معاشرے اورخطے میں جسم فروش افراد پائے جاتے ہیں، مشرق ہو یا مغرب اور افریقہ ہو یا ایشیاءجہاں پر انسان بستے ہیں وہاں پر جسم فروشی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہو تی ہیں ۔بعض ممالک میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور سیکس ورکرز قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے امور انجام دیتے ہیں اور ان کے بھی وہ حقوق اور استحقاق ہیں جو عام شہریوں کو حاصل ہیں جبکہ بعض ممالک میں جسم فروشی پر پابندی ہے اور وہاں پر ایسے لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔جسم فروشی دنیا کا ایک قدیم پیشہ ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ انسان کے اندر حیوانی جبلت اور نفسانی خواہش کی موجودگی ہے۔ اس پیشے کو جہاں پر بعض لوگ اپنی مرضی سے اپناتے ہیں وہاں پر خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں جبر و استحصال کے سبب اس پیشے میں شامل ہونا پڑتاہے۔اس کی دیگر وجوہات میں نہ صرف غربت اور بے روزگاری ہے بلکہ تعلیم کی کمی ،معاشرے کی بکھرتی ہوئی انسانی قدریں ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم ،طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح ، آبادی میںبے پناہ اضافہ ، مردوں کا خواتین پر بے جا جبر وتشدد ، قانون کی عدم حکمرانی ، اسلامی تعلیمات سے دوری ، بے راہروی ، ڈش اور انٹر نیٹ تک عام رسائی شامل ہے ۔
ہمارے ملک میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے اور تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے جس وجہ سے نہ صرف سنجیدہ طبقوں بلکہ عام شہریوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے ۔ کوئی شہر اور علاقہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں پرجسم فروش افرادموجود نہ ہوں مگر بعض اوقات حکومتی اداروں کی طرف سے مناسب کاروائی کے نتیجے میں یہ کام چوری چھپے ہونے لگتا ہے اور کبھی ان اداروں کی سرپرستی کی وجہ سے کھلے عام ہونے لگتا ہے۔اکثریتی ممالک میں ایسے افراد کیلئے مخصوص علاقے ہوتے ہیں جنہیں ریڈ لائٹ زون یا بازار حسن کہا جاتاہے۔ لاہور میں موجودہ بازار حسن(ہیرا منڈی) سینکڑوں سال قبل قائم ہوا ۔ اس بازار میں شاہی دربار ، وزاراءاور امراءکی محفلوں میں لوک گیت گانے اور روایتی رقص پیش کرنے والی طوائفیں اور ان کے سازندے رہا کرتے تھے یہاں بسنے والے یہ خاندان بڑے مہذب اور با اخلاق ہوتے تھے اور ان کے پاس شہر کے رئیس اپنی اولادوں کو تعلیم و تربیت کے لئے بھیجا کرتے تھے.
جبکہ جسم فروش عورتیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع موجودہ لنڈے بازار میں رہا کرتی تھیں یہ بازار سکھوں کے دور حکومت تک قائم رہا۔ سکھاشاہی کے دوران اس بازار میں بیٹھی چندخواتین کی وجہ سے جب ہندو مسلم فسادات ہوئے تو کشمیر کے مسلمان راجہ نے لنڈا بازار کی تمام عمارتیں خرید لیں اور یہاں سے تمام افراد کو نکال دیا گیاچنانچہ یہاں پر آباد خاندان پرانی انارکلی کے علاقے میں منتقل ہو گئے مگر انگریز دور حکومت میں یہاں قائم ہونے والی فوجی بیرکوں کی وجہ سے حکومت نے ان سے یہ علاقہ بھی خالی کروا لیا جس پر یہاں سے متعدد خاندان ہیرامنڈی میں منتقل ہو گئے اس طرح ہیرامنڈای میں بھی جسم فروشی کے اڈے قائم ہو گئے یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا مگرجب جنرل ضیا ءالحق کے دور میں بازار حسن کو بند کر دیا گیا اور یہاں پر کسی بھی قسم کی پرفارمنس ممنوع قرار دے دی گئی تو یہاں کے رہنے والے خاندان شہر کے مختلف علاقوں میں شفٹ ہو گئے اور یوں ایک محضوص علاقے میں قائم ہیرامنڈی پورے شہر میں پھیل گئی اور یہی حال پورے ملک کا ہوا ۔
لاہور شہر میں کوئی ایسی آبادی نہیں کہ جہاں پر کوٹھی خانے موجود نہ ہوں جبکہ بڑی مارکیٹوں ، سڑکوں ، درباروں،باغوں ، پارکوں اور اہم علاقوں میں بھی ان کی بھرمار رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور میں 2 لاکھ کے قریب جسم فروش خواتین اور لڑکے موجود ہیں جن میں 1213 سال کی عمر تک سے لیکر 4045 سال کی عمر تک کے افراد شامل ہیں اور ان کی تعداد میں 200 سے لیکر 300 افرادتک ماہانہ اضافہ ہو رہا ہے جبکہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ(IHRM) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15لاکھ کے قریب جسم فروش افراد موجود ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور انکے مطابق اس کی بنیادی وجہ غربت ہے کیونکہ کل آبادی کے 45فیصد افراد انتہائی غریب ہیںجن میں سے بیشتراپنی بنیادی ضروتوں کو پورا کرنے کیلئے اس پیشے کو مجبوراً اپنا لیتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق ان میں44فیصد خواتین غربت ،32فیصد دھوکے اور فریب ،18فیصد جبر وتشدد،4فیصد وہ خواتین جو انہی گھرانوں میں پیدا ہوئیں اور 2فیصد اپنی مرضی سے شامل ہیں۔
کیونکہ جسم فروشی میں معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں ان میں سے ایسی خواتین بھی ہیں جو صرف 50 روپے میں اپنی عزت بیچ دیتی ہیں اور بعض ایسی ہیں ہیں جو اپنے آپ کو پیش کرنے کیلئے لاکھوں روپے وصول کر تی ہیں غریب خاندان سے تعلق رکھے والی خواتین انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہی ہیں اور ان کے بچے دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں جبکہ بعض خواتین نے پوش علاقوں میں عالیشان مکانات بنائے ہوئے ہیں اور ان کی ہلکی سی مسکراہٹ پر سونے چاندی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔جسم فروشی میں اگرچہ ہر دور میں ہیجڑوں کا بھی کردار رہا ہے مگر موجودہ دور میں نو عمر بچوں کی شمولیت خاصی تشویش کی بات ہے۔اس پیشے میں سامنے نظر آنے والی خواتین اور لڑکوں کے علاوہ پس پردہ بڑے بڑے افراد اورگروہ کام کر رہے ہوتے ہیںجن کے رکن مختلف طریقوں اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں اس کام کی جانب راغب کرتے ہیں اور اس گروہ کے افراد نوعمر بچوں اور بچیوں کو ورغلا کر اغواءبھی کر لیتے ہیں اوربعد ازاں انہیں زبردستی اس دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔جیسا کے بعض اخبارات میں ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ جن کے مطابق لاہور کے بعض بڑے کوٹھی خانوں کی مشہور خواتین زلزلہ زدہ علاقوں سے بے سہارا بچیوں کو لانے کیلئے سرگرم ہو گئیں اور انھوں نے اپنے کارندے ان علاقوں میں بھیج دیے۔ویسے بھی بعض علاقوں میں رقم کے عوض خواتین کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور نو عمر لڑکوں سے دوستیاں رکھنا برا نہیں سمجھا جاتا۔ چند ہفتے قبل زلزلہ آنے سے قبل صوبہ سرحد میں ایک آدمی کی لڑکے سے شادی کافی عرصہ اخبارات کی زینت بنی رہی۔
جبکہ اس مقصدکیلئے بیرون ممالک سے بھی خواتین کو لایا جاتاہے۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں بنگلہ دیش سے 5 لاکھ خواتین ،برما سے 20 ہزار ،افغانستان سے ایک لاکھ اور روسی ریاستوں اور دیگر ممالک سے ہزاروں خواتین پاکستان آئیں اور جسم فروشی کے پیشہ سے منسلک ہوگئی ان میں سے متعدد خواتین ایسی ہیں کہ جنہوں نے اس پیشہ کواپنی مرضی سے اپنایا جبکہ اکثریت ایسی خواتین کی ہیں کہ جن کو ان کی مجبوریاں اس پیشہ میں لانے کا سبب بنی ،ان گرہووں کے ارکان بنگلہ دیش اور برما سے نوجوان لڑکیوں کو ملازمت اور مستقبل کے سنہرے خواب دیکھا کر لاتے ہیں اوربعد میںانھیں ملک کے مختلف شہروں میں فروخت کر دیا جاتا ہے اور یوں یہ لڑکیاں بازار حسن کی زینت بن جاتی ہیں۔
لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بعض ایسے کوٹھی خانے موجود ہیں کہ جہاں پر غیر ملکی خصوصاً روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین موجود ہیں ۔کراچی ،لاہور اورحیدرآباد کے بعد اب پشاور میں غیر ملکی سیکس ورکرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔جب سے افغانستان میں امریکی اور یورپی فوجوں نے ڈیرے ڈالے ہیں اور کابل میں ڈالروں کی بھرمار کے علاوہ کلب قائم ہوئے تب سے امریکہ ،مشرقی یورپ، یورپ اور روسی ریاستوں کی سیکس ورکرز خواتین نے کابل کا رخ کر لیا ۔ہمارے ملک میں اس پیشے کی موجودگی کی وجوہات درج بالا ہیں وہاں پر ہمارے معاشرے پر ہندو تہذیب اور کلچر کے بھی نمایاں اثرات ہیں ہندو مذہب میں تو سیکس کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ ہندووں کے شولنگ دیوتا سیکس کے دیوتا ہیں اور اس کے بھارت میں بڑے بڑے مندر ہیں جہاں پر دیوداسیاں شو لنگ کی پوجا کرتیں ہیں جبکہ دیگر خواتین بھی مندر میں عبادت کیلئے آتی ہیں۔ نیشنل کمیشن فار ویمن کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ایک کروڑ سے زائد خواتین بطور سیکس ورکر کے کام کرتی ہیں جس میں سے 40فیصد خواتین ایسی ہیںکہ جنہیںبھارت کے دور دراز علاقوں سے اغوا کر کے،زبردستی ،جبر وتشدد اور دیگر دھوکے اور فریب سے لایا گیا ہے.
ان میں سے 41.8فیصد خواتین 18سے 25سال کی ہیںجبکہ 6.21فیصد لڑکیاں18سال سے کم عمر کی ہیں۔56.79فیصد خواتین انپڑھ اور تعلیم سے عاری ہیں اور 47فیصد سیکنڈری سکول کی تعلیم سے لیکر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیںان مین زیادہ تر کا تعلق ہندووں کی نچلی ذاتوں سے ہے جبکہ 30فیصد غیر شادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ70فیصد شادی شدہ خواتین شامل ہیں۔
بنگلادیش کی 32 سالہ نصرت کا کہنا ہے کہ وہ نرائن گنج بنگلہ دیش کی رہنے والی ہے اور پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے 8 سال پہلے اچھی ملازمت کا جھانسہ دیکر براستہ بھارت پاکستان لائی گئی اور اندرون سندھ ایک شخص نے 50 ہزار روپے کے عوض مجھے خرید لیا وہ ایک اچھا انسان تھا اگرچہ میرے ساتھ بھی برتاﺅ تو وہی ہوتا تھا جو دوسری عورتوں کے ساتھ مگر اس نے مجھے رہنے کو مکان دیا ہوا تھا اور کھانے پینے کو بھی دیتا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد میں لاہور آگئی اوریہاں پرمیں نے نوکر ی تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر مجھے نوکری نہ ملی جبکہ کھا نا پینا اور دوسری ضروریات زندگی بھی پورا کر نی تھیں مکان کا کرایہ ادا کرنا تھا چنانچہ اب دوبارہ میں نے جسم فروشی کا پیشہ اختیار کر لیا ہے اور اب میرے گھر میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے اور میرے ساتھ میری منہ بولی خالہ بھی رہتی ہے افغانستان کے شہر مراز شریف کی رہنے والی 40 سالہ ماریہ نے بتایا کہ 20 سال قبل اس کا شوہر اور دیگر عزیزواقارب افغان جنگ و جدل میں مارے گئے جبکہ اس وقت میرا 2 سال کا بیٹا بھی تھااس وقت اس علاقے سے ایک قافلہ پاکستان میں آ رہاتھا میں بھی اس قافلے کے ساتھ پاکستان آ گئی چند دن میں کیمپ میں رہی اور پھر دوسرے لوگوں کے ساتھ پشاور چلی گئی جہاں پر میری ملاقات ایسے خاندان سے ہوئی جو جسم فروشی کا دھندہ کرتے تھے جن کے ساتھ میں لاہور آگئی اور میں نے بھی یہی دھندہ اپنا لیا بازار حسن میں پیداہونے والی 34 سالہ نائلہ نے بتایا کہ میں بچپن سے ہی موسیقی اور رقص سے لگاﺅ رکھتی ہوں میں اپنی چاروں بیٹیوں کو بھی یہی کام سیکھا رہی ہوں اس نے مزید بتایا کہ میں اس طبقے سے تعلق رکھتی ہوں جو اپنے گھر بیٹی پیداہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور میں اپنے اس پیشے سے مطمئن ہوں۔
1988میں اولمپک کھیلوں سے قبل کوریا کے شہر سیﺅل کا بازار حسن ایک چھوٹی سی سڑک پر عام اور پرانے کمروں پر مشتمل تھا مگر اولمپک کھیلوں کے انعقاد کے لئے جب وہاں کی حکومت نے سیول کو بین الاقوامی شہر کا درجہ دیا اور اہم سڑکوں ، بازاروں اور گلیوں کو توسیع دی گئی اور اہم مراکز نئے سرے سے تعمیر کیے گئے تو سیول کے بازار حسن کی قسمت بدل گئی۔سیول کے جنوب میں ایک وسیع سڑک پر ایک منزلہ خوبصورت اور جدید عمارتیں تعمیر کی گئی جن کے فرنٹ پر ایک آرائشی کمرہ جس کے سامنے شیشہ لگا ہوا تھا بھی بنائے گئے ۔کھیلوں کے انعقاد سے قبل ہی پرانے بازار حسن کے باسیوں کو اس نئے بازار میں منتقل کر دیا گیا اور کھیلوں کے شروع ہوتے ہی اس بازار کی رونقیں بھی عروج پر پہنچ گئیں جبکہ شیشوں کے کمرے میں بیٹھی لڑکیا ںاپنی خوبصورت اداﺅں سے مردوں کو لبھاتی۔ اسی طرح یورپ کے ممالک میں بھی بازار حسن ہیں یہاں پر کام کرنے والیوں کو فاحشہ کہنے کی بجائے سیکس ورکر کہا جاتا ہے جو مردوں کی فطری خواہش کی تکمیل کے بعد اپنا طے شدہ معاوضہ وصول کرنے کی حقدار ہوتی ہے جبکہ یہاں پر کام کرنے والیوں کا ہر ماہ باقاعدگی سے میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے اور کسی قسم کی خطرناک بیماری کی صورت میں اسے کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔
یورپ اور دیگر ممالک میں سیکس ورکرز متعدد یونینیں قائم ہیں جو سیکس ورکر کے قانونی حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ جبکہ ایشیائی ممالک میں بھارت پہلے نمبر پر ہے کہ جہاں سب سے زیادہ جسم فروشی ہوتی ہے اور اب بھارت میں بھی سیکس ورکرز نے اپنے تحفظ کے لئے انجمنیں بنا لی ہیں جو حکومتی اور عدالتی سطح پر ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کر رہی ہیں۔انٹرنیشنل یونین آف سیکس ورکرز کے ممبر اس وقت دنیا بھر کے ممالک میں موجود ہیں ۔اس کے ممبروں میں نہ صرف سیکس ورکرز شامل ہیں بلکہ بعض ایسے عام افراد بھی شامل ہیں جن کو سیکس ورکرز مہیا کر کے یہ یونین اپنے مفادات کا تحفظ کر تی ہے ۔اسی طرح مئی 2005میں امریکہ میں سان فرانسسکو سیکس ورکرز کا چوتھا سالانہ فلم اینڈ آرٹس فیسٹیول منعقد ہوا جس کے پروگرام ایک ہفتہ تک چلتے رہے ان پروگراموں میں امریکہ بھر سے مختلف طبقہ فکر کے افراد نے شرکت کی ۔سیکس ورکرز کے تحفظ کے بارے میں تقاریر کے علاوہ سمینار اور ورکشاپس کا انعقاد ہوا ۔ اس انجمن کے سان فرانسسکو کے علاوہ دیگر شہروں میں ایسے ادارے موجود ہیں کہ جہاں پرسیکس کی تعلیم کے علاوہ عملی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
فطری جذبات کی بے ہنگم اور ناجائز طریقوں سے تکمیل کی وجہ سے آج دنیا ایڈ زجیسے موذی اور لا علاج مرض کے شکنجے میں آچکی ہے ۔افریقی ممالک سے شروع ہونے والی یہ بیماری آج دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ ایڈز کے مرض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری دراصل بندروں کی بیماری ہے اور غیر فطری کاموںکی وجہ سے انسانوں میں منتقل ہوئی ۔اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کے اندر مختلف بیماریوں سے بچاﺅ کی قدرتی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے اور متاثرہ شخص کسی بھی بیماری کی زد میں آ کر موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں اور سب سے زیادہ افراد کا تعلق افریقی ممالک سے ہے جب کہ بھارت میں بھی ہزاروں افراد اس بیماری کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں پاکستان میں بھی متعد د افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔1987میں پاکستان میں ایڈز کا پہلا مریض رپورٹ کیا گیا جبکہ اب 70سے80ہزار افراد ایڈز میں مبتلا ہے اور یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔
سیکس ورکرز سے متعلق ہر معاشرے کی مختلف اصول و ضابطے ہیں بعض قوموں نے اسے قبول کر کے ان سے متعلق قانون وضع کر لیے اور انھیں کچھ حقوق بھی دیے جبکہ دیگر ممالک میں سخت سزائیں موجود ہیں مگرقانون کی موجودگی یا عدم موجودگی کی پروا کیے بغیر اس پیشہ کے افراد تمام دنیا بشمول اسلامی ممالک میں موجود ہیں۔ایسی معاشرتی برائیوں سے اسی وقت نجات مل سکتی ہے کہ جب یہاں سے مکمل طور پر غربت کا خاتمہ کیا جائے اور قانون کی حکمرانی قائم ہو اور خواتین پر جبر وتشدد کا خاتمہ ہو اور اسلامی تعلیمات سے لگاﺅں پیدا کیا جائے اور صرف حکومت ہی نہیں بلکہ مذہبی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں اور عام شہری ملکر اس پیشے کے قوموں ، قبیلوں اور نسلوں میں پھیلنے والے اثرات سے آگاہی اور شعور دیں۔
ہر معاشرے اورخطے میں جسم فروش افراد پائے جاتے ہیں، مشرق ہو یا مغرب اور افریقہ ہو یا ایشیاءجہاں پر انسان بستے ہیں وہاں پر جسم فروشی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہو تی ہیں ۔بعض ممالک میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور سیکس ورکرز قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے امور انجام دیتے ہیں اور ان کے بھی وہ حقوق اور استحقاق ہیں جو عام شہریوں کو حاصل ہیں جبکہ بعض ممالک میں جسم فروشی پر پابندی ہے اور وہاں پر ایسے لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔جسم فروشی دنیا کا ایک قدیم پیشہ ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ انسان کے اندر حیوانی جبلت اور نفسانی خواہش کی موجودگی ہے۔ اس پیشے کو جہاں پر بعض لوگ اپنی مرضی سے اپناتے ہیں وہاں پر خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں جبر و استحصال کے سبب اس پیشے میں شامل ہونا پڑتاہے۔اس کی دیگر وجوہات میں نہ صرف غربت اور بے روزگاری ہے بلکہ تعلیم کی کمی ،معاشرے کی بکھرتی ہوئی انسانی قدریں ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم ،طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح ، آبادی میںبے پناہ اضافہ ، مردوں کا خواتین پر بے جا جبر وتشدد ، قانون کی عدم حکمرانی ، اسلامی تعلیمات سے دوری ، بے راہروی ، ڈش اور انٹر نیٹ تک عام رسائی شامل ہے ۔
ہمارے ملک میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے اور تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے جس وجہ سے نہ صرف سنجیدہ طبقوں بلکہ عام شہریوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے ۔ کوئی شہر اور علاقہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں پرجسم فروش افرادموجود نہ ہوں مگر بعض اوقات حکومتی اداروں کی طرف سے مناسب کاروائی کے نتیجے میں یہ کام چوری چھپے ہونے لگتا ہے اور کبھی ان اداروں کی سرپرستی کی وجہ سے کھلے عام ہونے لگتا ہے۔اکثریتی ممالک میں ایسے افراد کیلئے مخصوص علاقے ہوتے ہیں جنہیں ریڈ لائٹ زون یا بازار حسن کہا جاتاہے۔ لاہور میں موجودہ بازار حسن(ہیرا منڈی) سینکڑوں سال قبل قائم ہوا ۔ اس بازار میں شاہی دربار ، وزاراءاور امراءکی محفلوں میں لوک گیت گانے اور روایتی رقص پیش کرنے والی طوائفیں اور ان کے سازندے رہا کرتے تھے یہاں بسنے والے یہ خاندان بڑے مہذب اور با اخلاق ہوتے تھے اور ان کے پاس شہر کے رئیس اپنی اولادوں کو تعلیم و تربیت کے لئے بھیجا کرتے تھے.
جبکہ جسم فروش عورتیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع موجودہ لنڈے بازار میں رہا کرتی تھیں یہ بازار سکھوں کے دور حکومت تک قائم رہا۔ سکھاشاہی کے دوران اس بازار میں بیٹھی چندخواتین کی وجہ سے جب ہندو مسلم فسادات ہوئے تو کشمیر کے مسلمان راجہ نے لنڈا بازار کی تمام عمارتیں خرید لیں اور یہاں سے تمام افراد کو نکال دیا گیاچنانچہ یہاں پر آباد خاندان پرانی انارکلی کے علاقے میں منتقل ہو گئے مگر انگریز دور حکومت میں یہاں قائم ہونے والی فوجی بیرکوں کی وجہ سے حکومت نے ان سے یہ علاقہ بھی خالی کروا لیا جس پر یہاں سے متعدد خاندان ہیرامنڈی میں منتقل ہو گئے اس طرح ہیرامنڈای میں بھی جسم فروشی کے اڈے قائم ہو گئے یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا مگرجب جنرل ضیا ءالحق کے دور میں بازار حسن کو بند کر دیا گیا اور یہاں پر کسی بھی قسم کی پرفارمنس ممنوع قرار دے دی گئی تو یہاں کے رہنے والے خاندان شہر کے مختلف علاقوں میں شفٹ ہو گئے اور یوں ایک محضوص علاقے میں قائم ہیرامنڈی پورے شہر میں پھیل گئی اور یہی حال پورے ملک کا ہوا ۔
لاہور شہر میں کوئی ایسی آبادی نہیں کہ جہاں پر کوٹھی خانے موجود نہ ہوں جبکہ بڑی مارکیٹوں ، سڑکوں ، درباروں،باغوں ، پارکوں اور اہم علاقوں میں بھی ان کی بھرمار رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور میں 2 لاکھ کے قریب جسم فروش خواتین اور لڑکے موجود ہیں جن میں 1213 سال کی عمر تک سے لیکر 4045 سال کی عمر تک کے افراد شامل ہیں اور ان کی تعداد میں 200 سے لیکر 300 افرادتک ماہانہ اضافہ ہو رہا ہے جبکہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ(IHRM) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15لاکھ کے قریب جسم فروش افراد موجود ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور انکے مطابق اس کی بنیادی وجہ غربت ہے کیونکہ کل آبادی کے 45فیصد افراد انتہائی غریب ہیںجن میں سے بیشتراپنی بنیادی ضروتوں کو پورا کرنے کیلئے اس پیشے کو مجبوراً اپنا لیتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق ان میں44فیصد خواتین غربت ،32فیصد دھوکے اور فریب ،18فیصد جبر وتشدد،4فیصد وہ خواتین جو انہی گھرانوں میں پیدا ہوئیں اور 2فیصد اپنی مرضی سے شامل ہیں۔
کیونکہ جسم فروشی میں معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں ان میں سے ایسی خواتین بھی ہیں جو صرف 50 روپے میں اپنی عزت بیچ دیتی ہیں اور بعض ایسی ہیں ہیں جو اپنے آپ کو پیش کرنے کیلئے لاکھوں روپے وصول کر تی ہیں غریب خاندان سے تعلق رکھے والی خواتین انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہی ہیں اور ان کے بچے دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں جبکہ بعض خواتین نے پوش علاقوں میں عالیشان مکانات بنائے ہوئے ہیں اور ان کی ہلکی سی مسکراہٹ پر سونے چاندی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔جسم فروشی میں اگرچہ ہر دور میں ہیجڑوں کا بھی کردار رہا ہے مگر موجودہ دور میں نو عمر بچوں کی شمولیت خاصی تشویش کی بات ہے۔اس پیشے میں سامنے نظر آنے والی خواتین اور لڑکوں کے علاوہ پس پردہ بڑے بڑے افراد اورگروہ کام کر رہے ہوتے ہیںجن کے رکن مختلف طریقوں اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں اس کام کی جانب راغب کرتے ہیں اور اس گروہ کے افراد نوعمر بچوں اور بچیوں کو ورغلا کر اغواءبھی کر لیتے ہیں اوربعد ازاں انہیں زبردستی اس دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔جیسا کے بعض اخبارات میں ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ جن کے مطابق لاہور کے بعض بڑے کوٹھی خانوں کی مشہور خواتین زلزلہ زدہ علاقوں سے بے سہارا بچیوں کو لانے کیلئے سرگرم ہو گئیں اور انھوں نے اپنے کارندے ان علاقوں میں بھیج دیے۔ویسے بھی بعض علاقوں میں رقم کے عوض خواتین کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور نو عمر لڑکوں سے دوستیاں رکھنا برا نہیں سمجھا جاتا۔ چند ہفتے قبل زلزلہ آنے سے قبل صوبہ سرحد میں ایک آدمی کی لڑکے سے شادی کافی عرصہ اخبارات کی زینت بنی رہی۔
جبکہ اس مقصدکیلئے بیرون ممالک سے بھی خواتین کو لایا جاتاہے۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں بنگلہ دیش سے 5 لاکھ خواتین ،برما سے 20 ہزار ،افغانستان سے ایک لاکھ اور روسی ریاستوں اور دیگر ممالک سے ہزاروں خواتین پاکستان آئیں اور جسم فروشی کے پیشہ سے منسلک ہوگئی ان میں سے متعدد خواتین ایسی ہیں کہ جنہوں نے اس پیشہ کواپنی مرضی سے اپنایا جبکہ اکثریت ایسی خواتین کی ہیں کہ جن کو ان کی مجبوریاں اس پیشہ میں لانے کا سبب بنی ،ان گرہووں کے ارکان بنگلہ دیش اور برما سے نوجوان لڑکیوں کو ملازمت اور مستقبل کے سنہرے خواب دیکھا کر لاتے ہیں اوربعد میںانھیں ملک کے مختلف شہروں میں فروخت کر دیا جاتا ہے اور یوں یہ لڑکیاں بازار حسن کی زینت بن جاتی ہیں۔
لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بعض ایسے کوٹھی خانے موجود ہیں کہ جہاں پر غیر ملکی خصوصاً روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین موجود ہیں ۔کراچی ،لاہور اورحیدرآباد کے بعد اب پشاور میں غیر ملکی سیکس ورکرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔جب سے افغانستان میں امریکی اور یورپی فوجوں نے ڈیرے ڈالے ہیں اور کابل میں ڈالروں کی بھرمار کے علاوہ کلب قائم ہوئے تب سے امریکہ ،مشرقی یورپ، یورپ اور روسی ریاستوں کی سیکس ورکرز خواتین نے کابل کا رخ کر لیا ۔ہمارے ملک میں اس پیشے کی موجودگی کی وجوہات درج بالا ہیں وہاں پر ہمارے معاشرے پر ہندو تہذیب اور کلچر کے بھی نمایاں اثرات ہیں ہندو مذہب میں تو سیکس کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ ہندووں کے شولنگ دیوتا سیکس کے دیوتا ہیں اور اس کے بھارت میں بڑے بڑے مندر ہیں جہاں پر دیوداسیاں شو لنگ کی پوجا کرتیں ہیں جبکہ دیگر خواتین بھی مندر میں عبادت کیلئے آتی ہیں۔ نیشنل کمیشن فار ویمن کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ایک کروڑ سے زائد خواتین بطور سیکس ورکر کے کام کرتی ہیں جس میں سے 40فیصد خواتین ایسی ہیںکہ جنہیںبھارت کے دور دراز علاقوں سے اغوا کر کے،زبردستی ،جبر وتشدد اور دیگر دھوکے اور فریب سے لایا گیا ہے.
ان میں سے 41.8فیصد خواتین 18سے 25سال کی ہیںجبکہ 6.21فیصد لڑکیاں18سال سے کم عمر کی ہیں۔56.79فیصد خواتین انپڑھ اور تعلیم سے عاری ہیں اور 47فیصد سیکنڈری سکول کی تعلیم سے لیکر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیںان مین زیادہ تر کا تعلق ہندووں کی نچلی ذاتوں سے ہے جبکہ 30فیصد غیر شادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ70فیصد شادی شدہ خواتین شامل ہیں۔
بنگلادیش کی 32 سالہ نصرت کا کہنا ہے کہ وہ نرائن گنج بنگلہ دیش کی رہنے والی ہے اور پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے 8 سال پہلے اچھی ملازمت کا جھانسہ دیکر براستہ بھارت پاکستان لائی گئی اور اندرون سندھ ایک شخص نے 50 ہزار روپے کے عوض مجھے خرید لیا وہ ایک اچھا انسان تھا اگرچہ میرے ساتھ بھی برتاﺅ تو وہی ہوتا تھا جو دوسری عورتوں کے ساتھ مگر اس نے مجھے رہنے کو مکان دیا ہوا تھا اور کھانے پینے کو بھی دیتا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد میں لاہور آگئی اوریہاں پرمیں نے نوکر ی تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر مجھے نوکری نہ ملی جبکہ کھا نا پینا اور دوسری ضروریات زندگی بھی پورا کر نی تھیں مکان کا کرایہ ادا کرنا تھا چنانچہ اب دوبارہ میں نے جسم فروشی کا پیشہ اختیار کر لیا ہے اور اب میرے گھر میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے اور میرے ساتھ میری منہ بولی خالہ بھی رہتی ہے افغانستان کے شہر مراز شریف کی رہنے والی 40 سالہ ماریہ نے بتایا کہ 20 سال قبل اس کا شوہر اور دیگر عزیزواقارب افغان جنگ و جدل میں مارے گئے جبکہ اس وقت میرا 2 سال کا بیٹا بھی تھااس وقت اس علاقے سے ایک قافلہ پاکستان میں آ رہاتھا میں بھی اس قافلے کے ساتھ پاکستان آ گئی چند دن میں کیمپ میں رہی اور پھر دوسرے لوگوں کے ساتھ پشاور چلی گئی جہاں پر میری ملاقات ایسے خاندان سے ہوئی جو جسم فروشی کا دھندہ کرتے تھے جن کے ساتھ میں لاہور آگئی اور میں نے بھی یہی دھندہ اپنا لیا بازار حسن میں پیداہونے والی 34 سالہ نائلہ نے بتایا کہ میں بچپن سے ہی موسیقی اور رقص سے لگاﺅ رکھتی ہوں میں اپنی چاروں بیٹیوں کو بھی یہی کام سیکھا رہی ہوں اس نے مزید بتایا کہ میں اس طبقے سے تعلق رکھتی ہوں جو اپنے گھر بیٹی پیداہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور میں اپنے اس پیشے سے مطمئن ہوں۔
1988میں اولمپک کھیلوں سے قبل کوریا کے شہر سیﺅل کا بازار حسن ایک چھوٹی سی سڑک پر عام اور پرانے کمروں پر مشتمل تھا مگر اولمپک کھیلوں کے انعقاد کے لئے جب وہاں کی حکومت نے سیول کو بین الاقوامی شہر کا درجہ دیا اور اہم سڑکوں ، بازاروں اور گلیوں کو توسیع دی گئی اور اہم مراکز نئے سرے سے تعمیر کیے گئے تو سیول کے بازار حسن کی قسمت بدل گئی۔سیول کے جنوب میں ایک وسیع سڑک پر ایک منزلہ خوبصورت اور جدید عمارتیں تعمیر کی گئی جن کے فرنٹ پر ایک آرائشی کمرہ جس کے سامنے شیشہ لگا ہوا تھا بھی بنائے گئے ۔کھیلوں کے انعقاد سے قبل ہی پرانے بازار حسن کے باسیوں کو اس نئے بازار میں منتقل کر دیا گیا اور کھیلوں کے شروع ہوتے ہی اس بازار کی رونقیں بھی عروج پر پہنچ گئیں جبکہ شیشوں کے کمرے میں بیٹھی لڑکیا ںاپنی خوبصورت اداﺅں سے مردوں کو لبھاتی۔ اسی طرح یورپ کے ممالک میں بھی بازار حسن ہیں یہاں پر کام کرنے والیوں کو فاحشہ کہنے کی بجائے سیکس ورکر کہا جاتا ہے جو مردوں کی فطری خواہش کی تکمیل کے بعد اپنا طے شدہ معاوضہ وصول کرنے کی حقدار ہوتی ہے جبکہ یہاں پر کام کرنے والیوں کا ہر ماہ باقاعدگی سے میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے اور کسی قسم کی خطرناک بیماری کی صورت میں اسے کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔
یورپ اور دیگر ممالک میں سیکس ورکرز متعدد یونینیں قائم ہیں جو سیکس ورکر کے قانونی حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ جبکہ ایشیائی ممالک میں بھارت پہلے نمبر پر ہے کہ جہاں سب سے زیادہ جسم فروشی ہوتی ہے اور اب بھارت میں بھی سیکس ورکرز نے اپنے تحفظ کے لئے انجمنیں بنا لی ہیں جو حکومتی اور عدالتی سطح پر ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کر رہی ہیں۔انٹرنیشنل یونین آف سیکس ورکرز کے ممبر اس وقت دنیا بھر کے ممالک میں موجود ہیں ۔اس کے ممبروں میں نہ صرف سیکس ورکرز شامل ہیں بلکہ بعض ایسے عام افراد بھی شامل ہیں جن کو سیکس ورکرز مہیا کر کے یہ یونین اپنے مفادات کا تحفظ کر تی ہے ۔اسی طرح مئی 2005میں امریکہ میں سان فرانسسکو سیکس ورکرز کا چوتھا سالانہ فلم اینڈ آرٹس فیسٹیول منعقد ہوا جس کے پروگرام ایک ہفتہ تک چلتے رہے ان پروگراموں میں امریکہ بھر سے مختلف طبقہ فکر کے افراد نے شرکت کی ۔سیکس ورکرز کے تحفظ کے بارے میں تقاریر کے علاوہ سمینار اور ورکشاپس کا انعقاد ہوا ۔ اس انجمن کے سان فرانسسکو کے علاوہ دیگر شہروں میں ایسے ادارے موجود ہیں کہ جہاں پرسیکس کی تعلیم کے علاوہ عملی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
فطری جذبات کی بے ہنگم اور ناجائز طریقوں سے تکمیل کی وجہ سے آج دنیا ایڈ زجیسے موذی اور لا علاج مرض کے شکنجے میں آچکی ہے ۔افریقی ممالک سے شروع ہونے والی یہ بیماری آج دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ ایڈز کے مرض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری دراصل بندروں کی بیماری ہے اور غیر فطری کاموںکی وجہ سے انسانوں میں منتقل ہوئی ۔اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کے اندر مختلف بیماریوں سے بچاﺅ کی قدرتی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے اور متاثرہ شخص کسی بھی بیماری کی زد میں آ کر موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں اور سب سے زیادہ افراد کا تعلق افریقی ممالک سے ہے جب کہ بھارت میں بھی ہزاروں افراد اس بیماری کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں پاکستان میں بھی متعد د افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔1987میں پاکستان میں ایڈز کا پہلا مریض رپورٹ کیا گیا جبکہ اب 70سے80ہزار افراد ایڈز میں مبتلا ہے اور یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔
سیکس ورکرز سے متعلق ہر معاشرے کی مختلف اصول و ضابطے ہیں بعض قوموں نے اسے قبول کر کے ان سے متعلق قانون وضع کر لیے اور انھیں کچھ حقوق بھی دیے جبکہ دیگر ممالک میں سخت سزائیں موجود ہیں مگرقانون کی موجودگی یا عدم موجودگی کی پروا کیے بغیر اس پیشہ کے افراد تمام دنیا بشمول اسلامی ممالک میں موجود ہیں۔ایسی معاشرتی برائیوں سے اسی وقت نجات مل سکتی ہے کہ جب یہاں سے مکمل طور پر غربت کا خاتمہ کیا جائے اور قانون کی حکمرانی قائم ہو اور خواتین پر جبر وتشدد کا خاتمہ ہو اور اسلامی تعلیمات سے لگاﺅں پیدا کیا جائے اور صرف حکومت ہی نہیں بلکہ مذہبی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں اور عام شہری ملکر اس پیشے کے قوموں ، قبیلوں اور نسلوں میں پھیلنے والے اثرات سے آگاہی اور شعور دیں۔
[...] ہر معاشرے اورخطے میں جسم فروش افراد پائے جاتے ہیں، مشرق ہو یا مغرب اور افریقہ ہو یا ایشیاءجہاں پر انسان بستے ہیں وہاں پر جسم فروشی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہو تی ہیں ۔بعض ممالک میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور سیکس ورکرز قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے امور انجام دیتے [...]
جواب دیںحذف کریں[...] ہر معاشرے اورخطے میں جسم فروش افراد پائے جاتے ہیں، مشرق ہو یا مغرب اور افریقہ ہو یا ایشیاءجہاں پر انسان بستے ہیں وہاں پر جسم فروشی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہو تی ہیں ۔بعض ممالک میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور سیکس ورکرز قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے امور انجام دیتے [...]
جواب دیںحذف کریںhkihenh jhg ei ju"hoe euedioe ddedeoe dhe doedge, dkidve dkdv diueuu d dujd en dided ed ejde dne jdvedn de e gefgdei v bcykd hdgdj dvbjd djdvd d hdgvd djhdgnd d djg vhjkd dchjdg dfhdcd gd sjdgsdgv dudd vckjdvfnbdbfkd ,fsb
جواب دیںحذف کریںhkihenh jhg ei ju"hoe euedioe ddedeoe dhe doedge, dkidve dkdv diueuu d dujd en dided ed ejde dne jdvedn de e gefgdei v bcykd hdgdj dvbjd djdvd d hdgvd djhdgnd d djg vhjkd dchjdg dfhdcd gd sjdgsdgv dudd vckjdvfnbdbfkd ,fsb
جواب دیںحذف کریںslam nan mohamed
جواب دیںحذف کریںmohamed ouaman bey
جواب دیںحذف کریںاس قسم کی تحریر سے اگرچے معلومات میں اضافہ ھوا مگر یگر بچے یہ تحریر پڑہین تو برا ثر ہو گا۔۔ بابر
جواب دیںحذف کریںاس قسم کی تحریر سے اگرچے معلومات میں اضافہ ھوا مگر یگر بچے یہ تحریر پڑہین تو برا ثر ہو گا۔۔ بابر
جواب دیںحذف کریںVery good article but it was not necessory to include pictures of nude women.
جواب دیںحذف کریںVery good article but it was not necessory to include pictures of nude women.
جواب دیںحذف کریں