گل بابونہ کے جادوئی اثرات

 


ترقی پذیر ممالک میں طبی فوائد رکھنے والی جڑی بوٹیاں، پودے، پھول و پھل سماجی، معاشرتی، روحانی اور طبی استعمال کے طور پر دیہاتی اور قبائلی علاقہ جات کی زندگیوں میں ہمیشہ سے ایک نہایت اہم کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔جبکہ موجودہ دور میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک دونوں ہی میں طبی فوائد رکھنے والے پودوں اور خوشبودار پودوں کی مانگ میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ طبی پودوں کا زیادہ تر خام مال جنگلات سے حاصل کیا جاتا ہے اور کچھ طبی پودوں کی کاشت بھی کی جاتی ہے۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں پر تقریبا چھ ہزار ایسے پودوں کی اقسام رپورٹ کی گئی ہیں جن میں سے 200 3 اقسام یونانی، ایلوپیتھک اور ہومیو پیتھک دواؤں کی تیاری میں استعمال ہورہی ہیں جبکہ 300اقسام روایتی دواؤں کی تیاری میں استعمال کی جارہی ہیں۔

اصل میں پاکستان میں جنگل کی کٹائی، قدرتی وسائل کا استحصال، گھاس کے میدانوں کی زیادہ چرائی اور قدرتی طور پر گھاس اگنے والی زمین کی زرعی زمین میں تبدیلی طبی پودوں کی قلت کا باعث بنی ہے۔ چنانچہ طبی فوائد رکھنے والے6ہزار پودوں کی موجودگی کے باوجود یہ ملک کی طبی ضروریات کا تقریباً صرف 10 فیصدہے اور تقریبا 90% جڑی بوٹیاں درآمد کی جاتی ہیں۔


دنیا بھر میں طبی جڑی بوٹیوں کی تجارت حجم اور برآمد کے حساب سے بڑھتی جا رہی ہے۔ طبی جڑی بوٹیوں کی عالمی تجارت کااندازہ800 ملین ڈالر سالانہ لگایا گیا ہے۔ چین 120,000 ٹن سالانہ جبکہ بھارت 32000 ٹن سالانہ برآمدات کررہا ہے جس کی بناء پر دونوں ممالک جڑی بوٹیوں کی عالمی مارکیٹ میں اپنا تسلط قائم کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان طبی جڑی بوٹیوں کی درآمدات پر 31.0 ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے جبکہ طبی جڑی بوٹیوں کی برآمدات صرف 6.0 ملین ڈالر ہے۔ (نوٹ: یہ اعداد و شمار 2019کے ہیں)

بابونہ کا تعارف
طبی فوائد رکھنے والی انہی جڑی بوٹیوں میں ایک بابونہ ( chamomile )نامی پودا ہے۔ جس کا نباتی نام میٹری کاریا کیمومیلا ہے۔جو جنوبی ایشیا سے امریکا تک پایا جانے والا مشہور پودا ہے۔ اس کی کئی اِقسام ہیں۔ بعض اِقسام کے پھولوں سے تیل بنتا ہے۔بعض اقسام کے پھولوں سے سفوف بنتا ہے اور کچھ اقسام کے پھولوں سے چائے تیار ہوتی ہے۔

اس پودے کے پھول کو گل بابونہ کہتے ہیں، انگریزی میں کیمومائل فلاور، عربی میں پابونج،سندھی میں بابونو اورہندی میں مرہی کہتے ہیں۔ بابونہ کا پودا لگ بھک تین فٹ اونچا ہوتا ہے۔ جس پر بہت سی ننھی ننھی سر سبز شاخیں ہوتی ہیں۔ جو بعض اوقات ایک بالشت تک بڑی ہوجاتی ہیں۔ پتے چھوٹے ہوتے ہیں۔ پھول سیوطی کے پھول کی طرح چکردارپھولوں کی اکہری یا ہری گھنڈیاں اور پھولوں کی رنگت سفید یا زرد ہوتی ہے۔سفید پھول زیادہ خوشبودار اورموثر ہوتے ہیں۔ پھولوں کے اندر ہی تخم (بیج)بھرے ہوتے ہیں۔اس پودے کے پھول، بیج اور جڑیں دواؤں میں استعمال ہوتی ہیں۔


بابونہ کے بنیادی اجزا
بابونہ سے حاصل کیے گئے تیل میں چامولین (chamazulene) ہوتا ہے۔ جو بنیادی طور پر اینجلک ایسڈ(angelic acid) اور ٹائگلک ایسڈ((tiglic acid سے تشکیل پاتا ہے۔ اس کے تیل میں فورنسیئن ( farnesene) اور اے پنینی( a-pinene) بھی شامل ہوتاہے۔
جبکہ گل بابونہ کے بنیادی اجزا میں ایک سے دو فیصدvolatile oils (ولاٹائل آئل) ہوتا ہے، جو alpha-bisabolol (الفا بیسا بولول اور alpha-bisabolol oxides A & B( بیسا بولول آکسائیڈ اے اور بی) پر مشتمل ہوتا ہے۔

بابونہ کا استعمال
بابونہ کے بیج، جڑوں اور خصوصاً پھولوں سے تیار کردہ مرکبات (ادویات، معجون،تیل وغیرہ) بخار، سوزش، پٹھوں کی کمزوری، حیض کی خرابی ( ایام حیض کو باقاعدہ بناتا ہے)، نیز پھولوں کا گرم جوشاندہ تکلیف دہ حیض میں افاقہ بخشتا ہے۔ السر، معدے کی خرابی، گٹھیا، بواسیر اور زخموں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسے قدرتی انسولین کا خزانہ بھی کہا جاتا ہے، یہ بوٹی شوگر کی دشمن بھی کہلوائی جاتی ہے۔
طب اسلامی و یونانی میں بابونہ یا گل بابونہ کا کافی استعمال کیا جاتا ہے۔جرمنی میں اس جڑی بوٹی کو ہومیو میڈیسن میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ محرک آور ہے، لہذا بدن میں بننے والی گلٹیوں اور گومڑوں کو تحلیل کرتا ہے۔ بابونہ نظام ہضم کی اصلاح کرکے ریاح کو دور کرتا ہے۔


بابونہ کے فوائد
بابونہ کے پھولوں سے بنی چائے انسان کو سکون بخشتی ہے اور اسی کے تنے ہوئے اعصاب کو نارمل کرتی ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کیمومائل فلاور کی چائے بہت شوق سے پی جاتی ہے جو اپنے طبی فوائد اور مسحور کن خوشبو کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ جبکہ پاکستان کے دیگر علاقوں جیسے پنجاب، سندھ وغیرہ میں گل بابو نہ کی چائے کم پی جاتی ہے، لیکن امریکہ اور یورپ میں اس کا اِستعمال عام ہے۔ وہاں بابوبہ کے جوہر سے بنی ادویات بھی عام ملتی ہیں۔ 2018میں امریکہ کے طبی سائنس دانوں نے بے چینی کے شکار متعدد افراد جن میں خواتین اور مرد شامل تھے کو آٹھ ہفتے تک بابونہ سے بنی ہوئی دوائیں کھلائیں۔انھوں نے دیکھا کہ ان ادویات کی بدولت وہ تقریباً سب بے سکونی سے نجات پاگئے۔

بابونہ پر مغرب میں ہونے والی تحقیقات
اسی طرح دیگر ایشیا ئی و یورپی ممالک میں کی جانے والی تحقیق سے اس کے حیرت انگیز اور ان گنت فوائد سامنے آئے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

بابونہ کا پھول میں Coumarinکمپاؤنڈ خون کو پتلا کرتا ہے۔
صدیوں سے اس کی چائے یونان، مصر اور روم میں زخموں کو مندمل کرنے کیلئے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ جسے جدید تحقیق نے بھی درست ثابت کیا ہے۔
طبی ماہرین کے نزدیک یہ چائے ذیابیطس اور بلڈ شوگر کے مریضوں کیلئے بھی انتہائی افادیت کی حامل ہے۔
یہ اینٹی بکٹیریل ہے اور سردی سے ہونے والی کھانسی فلو اور بخار وغیرہ کے مریضوں کیلئے انتہائی سود مند ہے۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کیمومائل کی چائے پٹھوں کے درد اور کچھاؤ میں آرام دیتی ہے۔
اس کی بنی ہوئی چائے معدے کے امراض مثلا گیس اور السر وغیرہ کیلئے انتہائی مفید ہے۔
کیمومائل ٹی کی مدد سے نیند کے مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ اس کے استعمال سے بہتر اور پر سکون نیند آتی ہے۔
یہ بواسیر کا قدرتی علاج ہے اور اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کی بنی چائے صحت مند جلد کے حصول کے لئے بھی مفید ہے اور خواتین اسے نیچرل سکن کلینزر کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
مغربی محققین طب نے اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ کینسر کے خلاف بھی موثر ہے لیکن فی الحال اس کے بارے میں مزید تحقیق جاری ہے۔

مشرقی ممالک میں اس کا استعمال
یونانی طب کی تاریخ میں بابونہ کا استعمال تقریباً 5ہزاربرس سے ہورہا ہے۔حکمت میں بابونہ کا مزاج خشک اور گرم ہے، جبکہ ذائقہ تلخ اور تیز ہے، یہ مقوی معدہ،کاسرریاح،محلل مقوی دماغ واعصاب،مدربول وحیض ہے۔ پھولوں کاتیل دافع تشنج ہے۔اعصاب کو نرم کرتا ہے۔اورقوت دیتا ہے۔
بابونہ کو طب میں زیادہ تر ورموں اور صلابتوں کے تحلیل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماًچوٹ،موچ،ورموں کی جگہوں پر سکائی کرنے کیلئے بابونہ کے پھولوں سے بنے جوشاندے سے دھوتے ہیں۔دماغی عصبی امراض میں، یرقان، کان کا درد، عرق النساء گھٹیا،وغیرہ میں سفوف یا مختلف طریقوں سے کھلایاجاتا یامالش کی جاتی ہے۔بابونہ کی جڑ سب افعال میں قوی ہے۔


بابونہ استعمال کرنے کا طریقہ
جلد کے امراض: جب چہرے پر سخت سوزشی پھنسیاں یا مہاسے نکل آئیں تو اس سے تیار کردہ آمیزے (بابونہ کے خشک پھولوں کا سفوف دو چمچ ایک کپ میں دس پندرہ منٹ کیلئے ابال لیں)کو ٹھنڈاکر کے روزانہ ایک دفعہ چہرہ دھوئیں۔ اس عمل سے پھنسیوں وغیرہ کے زہریلے مادے ختم ہوتے ہیں۔ سوزش کم ہوتی ہے اور مزید دانے نہیں نکلتے۔
بھاپ سے غسل: نزلہ زکام اور مخصوص اقسام کے بخار میں گھٹن سی محسوس ہوتی ہے۔ اسے دور کرنے کیلئے بابونہ کے سفوف پر گرم پانی (اُبلتا ہوا پانی نہ ہو) ڈالیے اور اٹھتی ہوئی بھاپ میں سانس لیں۔ طبیعت کھل جائیگی۔
اعصابی دباؤ میں کمی: بابونہ کے خشک پھولوں کا سفوف دو چمچ ایک کپ گرم پانی میں دس پندرہ منٹ کیلئے ڈالیں۔ ضروری ہے کہ پانی ابلتا ہوا نہ ہو (کیونکہ ابلتے پانی میں سفوف ڈالنے سے دو قیمتی مادے ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں جو مرض دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں)۔پھر یہ آمیزہ (چائے) نوش فرائیں۔مزید آپ اس میں لیموں یا پھر پودینے کے پتے بھی شامل کر سکتے ہیں۔ یہ چائے نیند، سستی، کاہلی کو بھی بھگاتی ہے۔ اس میں کیفین جیسے مضر اثرات بھی نہیں ہوتے۔
ایام کی تکلیف: گل بابونہ کے سفوف کو گرم پانی میں چینی، شہد، کالی مرچ میں سے کوئی ایک چیز ڈال کر پیا جاسکتا ہے۔سردیوں کے موسم میں خواتین ایام کے دنوں میں پئیں تو ایام کی تکلیف سے نجات مل سکتی ہے۔
امیون سسٹم: گل بابونہ کے جوشاندہ پر ہونے والی تحقیقات کے مطابق اسکو روزانہ ایک ہفتہ پینے والوں کا امیون سسٹم مضبوط ہوجاتا اور نروس سسٹم کو طاقت ملتی ہے۔گل بابونہ کا جوشاندہ بنانے کے لئے دو چمچ گل بابونہ اور اس میں پانچ پتے پودینہ کے لیکر ایک کپ ابلتا ہواپانی لیکر ان پر ڈال کر چند منٹ کے ڈھک دیں اور بعد میں نتھار کر پی لیں۔ انشا اللہ اسکا ذائقہ بھلا لگے گا۔
شیاٹیکا کا درد: اس درد میں مبتلا افراد درد کی جگہ پر اسکے پھولوں کا لیپ کرکے سکون پاسکتے ہیں۔
پیٹ میں مروڑ: اگر پیٹ میں مروڑ اٹھیں‘اجابت تکلیف سے ہوں تو دن میں بابونہ سے بنی چائے کے دو کپ پیجئے۔
بخار کی کیفیت: بابونہ کے پھولوں سے بنی چائے بخار بھی رفع کرتی ہے۔


ایک واقعہ
شہر کے مضافات میں جب ایک موٹرسائیکل سوار بس سے ٹکرا کر گرا تو لوگ اس کے گرد اکٹھے ہوگئے۔ زخم گہرے نہیں تھے لیکن ان سے خون بہہ رہا تھا اور خطرہ تھا کہ زخمی موت کا شکار ہوجائے گا۔ قرب و جوار میں کسی ڈاکٹر کا مطب بھی نہیں تھا جو آکر ابتدائی طبی امداد فراہم کرتا۔ اسی دوران ایک شخص کسی حکیم کو لے آیا۔ اس وقت تک زخمی تکلیف کے مارے تڑپنے لگا تھا۔ حکیم نے زخمی کے زخم دیکھے اور اپنے تھیلے سے کوئی سفوف نکالا جسے زخموں پر مَل دیا۔ زخمی کو محسوس ہوا جیسے زخموں سے پھوٹتی درد کی آگ پر کسی نے سرد پانی ڈال دیا ہے‘ وہ سکون محسوس کرنے لگا۔ سب لوگ سفوف کی کرامت پر حیران ہوئے۔ زخموں کی تکلیف کم کرنے والا یہ سفوف گل بابونہ سے بنایا گیا تھا۔

استعمال میں احتیاط
یہ بھی یاد رکھیے! ماہرین کے مطابق بابونہ سب سے محفوظ جڑی بوٹی ہے، لیکن دیگر جڑی بوٹیوں کی طرح چند لوگ اس سے الرجی رکھتے ہیں اور ان میں چھپاکی، تپ کاہی اور دمے جیسی علامات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اسی لیے مشورہ ہے کہ پہلے بابونہ سے بنی دوا تھوڑی سی استعمال کریں تاکہ یقین ہوجائے کہ آپ ان چند لوگوں میں شامل تونہیں جو بابونہ سے الرجی رکھتے ہیں۔ نیز مزید احتیاط کیلئے اپنے معالج سے مشورہ کے بغیر ہر گز استعمال نہ کریں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.