ایران کا عراق میں امریکی فضائی اڈوں پربیلسٹک میزائلوں کا انتقامی حملہ




ایران نے امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکی سربراہی میں موجود اتحادی افواج پر میزائل حملے کردیے۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق تہران نے مقامی وقت کے مطابق رات ڈیڑھ بجے عراق میں 2 فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جہاں امریکی اتحادی افواج کے اہلکار رہتے ہیں اور اپنی سرزمین سے ایک درجن سے زائد میزائل فائر کیے۔
سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق ایران کے اسلامی پاسداران انقلاب نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں راکٹ فائر کرنے کی تصدیق کی۔
بیان میں امریکا کو مزید اموات سے بچنے کے لیے خطے سے اپنے فوجی اہلکار واپس بلانے تجویز بھی دی گئی اور امریکی اتحادیوں بشمول اسرائیل کو خبردار کیا کہ حملوں کے لیے اپنی سرزمین نہ استعمال ہونے دیں۔
دوسری جانب پینٹاگون کی جانب سے ایرانی حملے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد فراہم نہیں کی گئی۔
پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہوفمین نے ایک بیان میں کہا کہ عراق میں الاسد فضائی اڈے اور اربیل میں ایک اور اڈے کو نشانہ بنایا گیا، ہم لڑائی سے ہونے والے نقصانات کے ابتدائی جائزے پر کام کررہے ہیں‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’جیسے ہی ہم صورتحال اور اپنے ردِ عمل کا اندازہ لگالیں گے خطے میں موجود امریکی اہلکاروں، اتحادیوں اور شراکت داروں کا دفاع اور حفاظت کرنے کے لیے تمام تر ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے‘۔
سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں امریکی عوام کو تسلی دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب تک ’سب ٹھیک ہے‘ ہمارے پاس دنیا کی سب سے بہترین اور طاقتور فوج ہے۔


انہوں نے کہا کہ عراق میں 2 فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملے میں ہونے والے نقصانات اور ہلاکتوں کا اندازہ لگایا جارہا اور اس ضمن میں بدھ کی صبح بیان جاری کیا جائے گا۔
ادھر وائٹ ہاؤس ترجمان اسٹیفنی گریشم نے بتایا کہ دسمبر 2018 میں الاسد فضائی اڈے کا دورہ کرنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حملے کے حوالے بریفنگ دی گئی اور صورتحال کی نگرانی جاری ہے۔
بیان میں انہوں نے کہا کہ ’ہم عراق میں امریکی مقامات کو نشانہ بنانے کی اطلاعات سے آگاہ ہیں، صدر کو اس حوالے سے بریف کیا گیا جو صورتحال کی بغور نگرانی اور قومی سلامتی ٹیم سے مشاورت کررہے ہیں‘۔


دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ایران جنگ یا کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا لیکن کسی بھی جارحیت کے خلاف ہم اپنا دفاع کریں گے۔
حملے کی خبر ملتے ہیں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو اور سیکریٹری دفاع مارک اسپر وائٹ ہاؤس پہنچ گئے تاہم یہ بات واضح نہیں کہ امریکا کی جانب سے کس طرح کا ردِ عمل دیا جاسکتا ہے۔

ایرانی حملے کے اثرات

عراق میں ایرانی حملے کی خبریں پھیلتے ہیں ایشیا میں اسٹاک مارکیٹ تیزی سے نیچے آگئی جبکہ سرمایہ کاروں نے سرمایہ محفوظ بنانے کے لیے جاپانی ین اور سونے میں سرمایہ کاری کرنی شروع کردی جس سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔
علاوہ ازیں حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں تنازع زور پکڑنے اور غیر یقینی صورتحال کے پیشِ نظر تیل کی قیمیں کئی ماہ کی بلند ترین سطح پر جاپہنچیں۔
ایران کے حملے کے بعد امریکا کی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے امریکی طیاروں کے ایران، عراق، خلیج عمان کے ساتھ ساتھ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مغربی ساحلوں سے گزرنے پر پابندی عائد کردی۔

ایران امریکا کشیدگی

واضح رہے ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں شدت اس وقت آئی تھی جب27 دسمبر کو بغداد کے شمال میں کرکوک میں عراقی فوجی اڈے پر30 راکٹ فائر ہونے کے نتیجے میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت ہوئی۔
جس کے جواب میں امریکی فورسز نے 29 دسمبر کو عسکری آپریشن (اوآئی آر) کے تحت ایران کی حامی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے عراق اور شام میں 5 ٹھکانوں پر حملہ کیا جس سے 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔
جنگجوؤں کی ہلاکت پر ہزاروں افراد نے بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تاہم اس سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے اکثر عملے کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔
مظاہرین نے سفارت خانہ بند کرنے کے مطالبے اور پارلیمنٹ سے امریکی فورسز کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے پر مبنی پوسٹرز تھامے ہوئے تھے جنہوں نے نہ صرف سفارتخانے پر پتھراؤ کیا بلکہ دیواروں پر نصب سیکیورٹی کیمرے اتار کر پھینک دیے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا اور تہران کو خبردار کیا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔
جس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عراق میں فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے دھمکی دی کہ ان کا ملک خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس تمام تر تنازع میں مزید کشیدگی اس وقت شدید تر ہوگئی جب امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے۔
پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اس حملے کا مقصد مستقبل میں ایرانی حملوں کی منصوبہ بندی کو روکنا تھا اور امریکا اپنے شہریوں اور دنیا بھر میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ناگزیر اقدامات کرتا رہے گا‘ـ
قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا اور تہران نے امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے اس قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔
ایران کے ریاستی ٹی وی نے قاسم سلیمانی کے قتل کو جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکا کی سب سے بڑے غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ خطے کے عوام اب امریکا کو یہاں مزید قیام کا کوئی موقع نہیں دیں گے۔
بعدازاں 4 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے گرین زون میں امریکی فوجیوں کے ایک بیس پر راکٹ حملہ کیا گیا تاہم کسی قسم کے نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.