پھیپھڑوں کے شدید عارضے کا باعث کرونا وائرس ۔۔۔ کیا احتیاط کی جائے؟





منصور مہدی
ایک پراسرار وائرس جو کہ اب تک سائنس کے علم میں نہیں تھا چین کے شہر ووہان میں پھیپھڑوں کے شدید عارضے کا باعث بن رہا ہے۔

 ستائیس جنوری تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سینکڑوں افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن  میں سے نوے افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جراثیم کے نمونے مریضوں سے حاصل کیے گئے ہیں اور ان کا لیبارٹری میں جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چین میں حکام اور عالمی ادارہ صحت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کرونا وائرس (ایسا وائرس جو زکام پیدا کرتا ہے) سے پیدا ہونے والی وبا ہے۔کرونا وائرس، وائرس کی قسم یا خاندان ہے ،لیکن اس قسم کے وائرس میں صرف چھ ایسے ہیں جو کہ انسان کو متاثر کرتے ہیں۔ لیکن نیا دریافت ہونے والا ایسا ساتواں وائرس ہو گا۔

یاد رہے کہ چین میں 2002 میں نظام تنفس کو شدید متاثر کرنے والی بیماری (سارس) جو کہ کروناوائرس کی وجہ سے پھوٹی تھی اس میں 8098 متاثرہ افراد میں سے 774 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ویلکم ٹرسٹ نامی ادارے کی ڈاکٹر جوزی گولڈنگ نے کہا ’سارس کی تلخ یادیں آج بھی تازہ ہے جس کی وجہ سے لوگ بہت خوف زدہ بھی ہیں لیکن اس تجربے کے بعد سے ایسی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے ہم زیادہ بہتر طور پر تیار ہیں۔‘

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے پروفیسر مارک وولہاو ¿س نے کہا ’جب کوئی نیا کرونا وائرس دریافت ہوتا ہے تو یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بیماری کی علامات کتنی شدید ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’نئے وائرس سے ہونے والی علامات نزلے کی علامات سے شدید ہیں لیکن ابھی تک اتنی سنگین نہیں ہیں جتنی سارس کے وائرس کی تھیں۔‘

یہ کہاں سے آیا ہے؟ اس حوالے سے یونیورسٹی آف ناٹنگھم کے وائرولوجسٹ پروفیسر جوناتھن بال نے کہا ’اگر ماضی کی وباو ¿ں کو دیکھیں اور اگر یہ کوئی نیا کروناوائرس ہے تو یہ کسی جانور سے ہی آیا ہو گا۔‘سارس وائرس سیویٹ کیٹ نامی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔اور نظام تنفس کی بیماری مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (میرس) جس کے 2012 میں سامنے آنے کے بعد سے اب تک 2494 افراد متاثر ہو چکے ہیں اور اس سے 858 ہلاک ہو چکے ہیں، وہ اونٹوں کی ایک نسل سے انسانوں میں پھیلا تھا۔
موجودہ کرونا وائرس کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اگر یہ پتا چل جائے کہ یہ وائرس کس جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے تو اس کا علاج کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔موجودہ کیسز کا تعلق ساو ¿تھ چائنہ سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے پایا گیا ہے۔لیکن جہاں سمندر میں پائے جانے والے کچھ ممالیہ جانورں میں کرونا وائرس پایا جاتا ہے (مثلاً بیلوجا وہیل) مگر اس مارکیٹ میں کچھ جنگلی جانور بشمول مرغیاں، چمگادڑیں، خرگوش اور سانپ بھی رکھے جاتے ہیں جن کے باعث بیماری کا سبب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

پروفیسر وولہاو ¿س نے چین اس وبا کے پھیلنے وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی ایک وجہ زیادہ اور گنجان آبادی اور اس آبادی کی ایسے جانوروں سے جسمانی قربت، جن میں یہ وائرس پایا جاتا ہے، ہو سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ چین میں یا دنیا کے اس حصے میں یہ وبا پھوٹی ہے۔

یہ کتنی آسانی سے پھیلتی ہے؟ کے حوالے سے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس نئی وبا کے بارے میں ایک امر جو اطمینان کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ یہ نیا وائرس بظاہر انسانوں سے انسانوں میں نہیں پھیلتا۔پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے نئے وائرسز کے بارے میں سب سے زیادہ باعثِ تشویش بات یہ ہوتی ہے کہ یہ کھانسی اور چھینکوں کا باعث بنتے ہیں جو وائرس کے پھیلنے کا سبب بنتا ہے۔اگر یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو رہا ہے تو آپ کو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس سے طبی عملہ بھی متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ وہ مریضوں سے براہِ راست رابطے میں آتے ہیں۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔تاہم کچھ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ انسانوں سے انسانوں میں نہیں پھیل رہا۔پروفیسر بال کا کہنا ہے کہ قلیل عرصے میں سینکڑوں افراد کے جانوروں کے وائرس سے متاثر ہونا بظاہر لگتا ہے کہ بہت زیادہ ہے لیکن یہ ابھی ایک حل طلب سوال ہے۔پروفیسر وولہاو ¿س کا کہنا ہے ’میں شک میں مبتلا نہیں بلکہ محتاط ہوں یہ ابھی قبل از وقت ہے۔ زیادہ تر کرونا وائرس انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں، اس لیے یہ میری ابتدائی تشویش ہے۔

کرونا وائرس کو جب طبی ماہرین نے خردبین کے ذریعے دیکھا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظرآئے جوعموما تاج (کراو ¿ن) جیسی شکل بناتے ہیں۔ اسی بنا پر انہیں کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہا جاتا ہے۔

اب بھی زیادہ تر جان دار مثلاً خنزیر اور مرغیاں ہی اس سے متاثر ہوتے دیکھے گئی ہیں لیکن یہ وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو متاثر کرسکتا ہے اور کرتا رہا ہے۔ 1960ءکے عشرے میں کرونا وائرس کا نام دنیا نے سنا اور اب تک اس کی کئی تبدیل شدہ اقسام ( مجموعی طور پر 13) سامنے آچکی ہیں جنہیں اپنی ا?سانی کے لیے کرونا وائرس کا ہی نام دیا گیا ہے تاہم ان کرونا وائرس کی 13 اقسام میں سے سات انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔ اس سال چین کے شہر ووہان میں ہلاکت خیز وائرس کو nCoV 2019 کا نام دیا گیا ہے جو اس وائرس کی بالکل نئی قسم ہے۔

واضح رہے کہ کرونا وائرس کی ذیلی اقسام میں سے انسانوں کے لیے تین ہلاکت خیز وائرسوں میں سے دو چین سے پھوٹے ہیں۔ اول، سیویئر ریسپریٹری سنڈروم (سارس) ، دوسرا مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) مشرقِ وسطیٰ سے اور اب تیسرا 2019 nCoV بھی چین کے شہر ووہان سے پھیلا ہے۔ووہان وائرس سانس کی اوپری نالی پر حملہ کرتے ہوئے سانس کے نچلے نظام کو متاثر کرتا ہے اورجان لیوا نمونیا یا فلو کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس سے قبل 2003ءمیں سارس وائرس سے چین میں 774 افراد ہلاک اور 8098 متاثر ہوئے تھے۔ 
نئے کرونا وائرس حملے کی علامات بتاتے ہوئے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چین میں لوگوں نے بد ہضمی، سردی لگنے، بخاراور کھانسی کی شکایت کی ہے۔ جن پر حملہ شدید ہوا انہوں نے سانس لینے میں دقت بیان کی ہے۔ صحت کے عالمی اداروں کے مطابق وائرس سے متاثر ہونے کے دو روز سے دو ہفتے کے دوران اس کی ظاہری علامات سامنے آتی ہیں۔ اس کے بعد ضروری ہے کہ مریض کو الگ تھلگ ایک قرنطینہ میں رکھا جائے۔ اس وقت ووہان کے لوگوں نے کئی دنوں کا راشن جمع کرلیا ہے اور اکثریت باہر نکلنے سے گریزاں ہے۔
نئے کرونا وائرس کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے ماہرین نے ووہان سے نمودار ہونے والے وائرس کا جینوم (جینیاتی ڈرافٹ) معلوم کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دوا یا ویکسین سامنے نہیں آسکی ہے کیونکہ دسمبر 2019ءمیں نیا وائرس سامنے آیا ہے اور ماہرین اس کی ظاہری علامات سے ہی اس کا علاج کررہے ہیں۔ اگرچہ چین کا دعویٰ ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے والے 4 فیصد افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس سے متاثرہ 25 فیصد مریض شدید بیمار ہیں۔

دوروز قبل چینی سائنس دانوں نے جینیاتی تحقیق کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ پہلی مرتبہ کرونا وائرس کی کوئی نئی قسم سانپ سے پھیلی ہے جنہیں ووہان کے بازار میں زندہ چمگادڑوں کے ساتھ رکھا گیا تھا تاہم دیگر ماہرین نے یہ امکان رد کردیا ہے۔ چین میں سانپ ، حشرات اور چمکادڑوں کے سوپ اور کھانے عام ہیں۔
دیگر ممالک کے ماہرین کا اصرار ہے کہ پہلے کی طرح یہ وائرس بھی ایسے جانوروں سے پھیلا ہے جو چینی بازاروں میں پھل اور سبزیوں کے پاس ہی زندہ فروخت کیے جاتے ہیں۔ لوگ ان سے متاثر ہوسکتے ہیں اور سارس بھی ایسے ہی پھیلا تھا۔ چینی ماہرین کا اصرار ہے کہ سانپ اور چمگاڈروں کا فضلہ ہوا میں پھیل کر سائنس کے ذریعے انسانوں میں اس وائرس کی وجہ بن سکتا ہے لیکن دوسرے ماہرین اس سے متفق نہیں۔
عالمگیر وبا بننے کے حوالے سے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی وائرس کو عالمی وبا بننے کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں:

اول: وائرس کی نئی قسم ہو
دوم: حیوان سے انسان تک منتقل ہونے کی صلاحیت
سوم: انسان میں مرض پیدا کرنے کی صلاحیت
چہارم: انسان سے انسانوں تک بیماری پیدا کرنے کی استعداد

اس تناظر میں نئے کرونا وائرس میں یہ چاروں باتیں سامنے آچکی ہیں۔ یہ وائرس بہت کم وقفے میں دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس سے قبل سوائن فلو کی وبا صرف ایک ماہ میں کئی ممالک تک سرایت کرچکی تھی۔

 واضح رہے کہ چینی شہر ووہان کا یہ وائرس پہلے دیگر شہروں میں پھیلا ہے۔ اس کے بعد جاپان، تھائی لینڈ، سنگاپور اور امریکا میں اس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر چینی مسافروں کی اسکیننگ کی جارہی ہے۔ ایک مریض برطانیہ میں بھی سامنے آیا ہے لیکن عالمی ادارے نے اس کی تصدیق نہیں کی۔پاکستانی ہوائی اڈوں پر بھی اسکیننگ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں چینی ماہرین سی پیک اور دیگر منصوبوں کے لیے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کڑی نگرانی اور اسکیننگ کی ضرورت ہے۔ صرف چین میں ہی ایک شخص سے کئی افراد متاثر ہونے کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔
وزیرِ مملکت برائے صحت ظفرمرزا نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے پاس کرونا وائرس کی شناخت اور اسکریننگ کے مناسب انتظامات موجود نہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کو مزید چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔
کرونا وائرس سے کیسے بچا جائے؟ کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں باتصویر ہدایات جاری کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے:

بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا جائے۔ کسی کی بھی آنکھ ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کیجیے۔

فرانس کے وزیر صحت کا کہنا ہے کہ بورڈیوکس میں ایک جبکہ پیرس میں دو افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔فرانس کے وزیر صحت ایگنز بوزائن کا کہنا ہے کہ فرانس میں سامنے آنے والا کرونا وائرس کا ایک کیس 48 سالہ چینی نژاد باشندے کا ہے جو حال ہی میں ووہان شہر سے واپس آیا تھا۔ اس مریض کو مقامی ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے۔پیرس میں سامنے آنے والے والے دوسرے کیس سے متعلق زیادہ تفصیلات موجود نہیں ہیں مگر اس شخص کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ چین آتا جاتا رہتا ہے۔ جمعہ کی شب وزیر صحت نے فرانس میں کرونا کے تیسرے مریض کی موجودگی کی تصدیق بھی کی ہے۔وزیر صحت نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ یورپ میں اس وائرس کے مزید کیس سامنے آ سکتے ہیں۔
 آسٹریلیا نے بھی اپنے ملک میں اس وائرس سے متاثرہ ایک شخص کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔ اس شخص کو میلبورن کے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے۔ یہ متاثرہ شخص گذشتہ ہفتے ہی چین سے واپس آسٹریلیا آیا تھا۔امریکہ کی بات کی جائے تو اس کی ریاست شکاگو میں اس وائرس سے متاثرہ پہلا کیس جمعے کو سامنے آیا تھا۔سنگاپور میں اب تک تین جبکہ نیپال میں ایک کیس سامنے آ چکا ہے۔تھائی لینڈ میں پانچ افراد میں اس وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے، ویتنام اور جنوبی کوریا میں دو، دو جبکہ تائیوان میں ایک کیس سامنے آیا ہے۔چند دوسرے ممالک میں کرونا وائرس سے متاثرہ مشتبہ کیسز کی تفتیش جاری ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ اور کینیڈا بھی شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اب تک اس وائرس کو ’بین الاقوامی ایمرجنسی'‘کی کیٹگری میں نہیں ڈالا ہے اور اس کی وجہ چین سے باہر اس وائرس سے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد کا نہ ہونا ہے۔

کرونا وائرس: کیا ماسک پہننے سے وائرس کی منتقلی سے بچا جا سکتا ہے؟ کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی وائرس کے پھیلنے کے بعد سب سے زیادہ نظر آنے والی تصاویر ڈاکٹروں والے ماسک پہنے لوگوں کی دکھائی دیتی ہیں۔انفیکشن سے بچنے کے لیے ایسے نقاب یا ماسک کا استعمال دنیا کے بہت سے ممالک میں مقبول ہے۔ خاص طور پر چین میں کورونا وائرس کے حالیہ پھیلاو ¿ کے دوران ان کا استعمال بڑھ گیا ہے جبکہ ایسے ہی ماسک چین میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے بھی پہنے جاتے ہیں۔تاہم ماہرین فضا سے پھیلنے والے وائرس سے بچاو ¿ میں ماسک کے پراثر ہونے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔لیکن کچھ ایسے شواہد ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ماسک وائرس کی ہاتھوں سے منہ تک منتقلی روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

سرجیکل ماسک 18ویں صدی میں ہسپتالوں میں متعارف کروائے گئے مگر عوامی سطح پر ان کا استعمال 1919 میں اس ہسپانوی فلو سے قبل سامنے نہیں آیا جو پانچ کروڑ افراد کی ہلاکت کی وجہ بنا تھا۔برطانیہ کی سینٹ جارج یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر ڈیوڈ کیرنگٹن کا کہنا ہے کہ 'عام استعمال کے سرجیکل ماسک فضا میں موجود وائرس یا بیکٹیریا سے بچاو ¿ کے لیے بہت پراثر ثابت نہیں ہوئے اور زیادہ تر وائرس اسی طریقے سے پھیلے تھے۔ ان کی ناکامی کی وجہ ان کا ڈھیلا ہونا، ہوا کی صفائی کے فلٹر کی عدم موجودگی اور آنکھوں کے بچاو ¿ کا کوئی انتظام نہ ہونا تھا۔'

لیکن یہ ماسک کھانسی یا چھینک کی رطوبت میں موجود وائرس سے بچاو ¿ اور ہاتھ سے منہ تک وائرس کی منتقلی کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتے تھے۔

 2016 میں نیو ساو ¿تھ ویلز میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ لوگ ایک گھنٹے میں تقریباً 23 مرتبہ اپنے منہ کو ہاتھ لگاتے ہیں۔

پروفیسر جوناتھن بال یونیورسٹی آف ناٹنگھم میں مالیکیولر وائرالوجی کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ایک ہسپتال کے ماحول میں کی جانے والی محدود تحقیق یا کنٹرولڈ سٹڈی میں فیس ماسک بھی انفلوئنزا کے انفیکشن سے بچاو ¿ میں اتنا ہی اچھا رہا جتنا اس مقصد کے لیے بنایا جانے والا سانس لینے والا مخصوص آلہ تھا۔'سانس لینے کے لیے بنایا جانے والے اس آلے میں ہوا کو صاف کرنے کے لیے فلٹر لگا ہوتا ہے اور یہ خاص طور پر اس طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ اس سے ممکنہ طور پر فضا میں موجود خطرناک ذرات سے بچنے میں مدد مل سکے۔ پروفیسر بال مزید کہتے ہیں کہ 'بہرحال جب آپ عمومی سطح پر عوام میں ماسک کے فائدے سے متعلق کی گئی تحقیقات کو دیکھتے ہیں تو اعداد وشمار اتنے مثاثرکن نظر نہیں آتے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماسک کو طویل وقت تک استعمال کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ڈاکٹر کونوربیمفرڈ بیلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی میں تجرباتی ادویات کے انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں صفائی سے متعلق سادہ سی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بہت زیادہ سودمند ہے۔وہ کہتے ہیں 'جب چھینک آئے تو منہ ڈھکنا، ہاتھ دھونا اور ہاتھ دھونے سے پہلے انھیں منہ پر نہ لگانا ایسے اقدامات ہیں جو سانس کے ذریعے وائرس کی منتقلی روکنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ کے قومی ادرہ صحت کا کہنا ہے کہ فلو پیدا کرنے والے وائرس وغیرہ سے بچنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ:ہاتھوں کو گرم پانی اور صابن سے باقاعدگی سے دھویا جائے۔جتنا بھی ممکن ہو اپنی آنکھوں اور ناک کو چھونے سے گریز کریں۔صحت مند انداز زندگی کو اپنائیں۔

ڈاکٹر جیک ڈننگ پبلک ہیلتھ انگلینڈ میں انفیکشنز اور جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے امراض سے متعلق شعبے کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اگرچہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ منہ پر ماسک پہننا شاید فائدہ مند ہے، حقیقت میں ہسپتال کے ماحول سے باہر اس کے بڑے پیمانے پر فائدہ مند ہونے کے بہت ہی کم شواہد ہیں۔'وہ کہتے ہیں کہ ماسک کو صحیح طریقے سے پہننا چاہیے، اسے تبدیل بھی کرتے رہنا چاہیے اور انھیں محفوظ طریقے سے تلف کرنا چاہیے۔ڈاکٹر ڈننگ کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کو اس حوالے سے خوف ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی جسمانی، خاص طور پر ہاتھوں کی صفائی پر زیادہ توجہ دیں۔

ادھر پاکستان میں کروناوائرس کا پہلا کیس سامنے آگیا ہے، مہلک وائرس سے متاثرہ مسافر نے چین سے دبئی کا سفر کیا اور پھر وطن واپس پہنچا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مسافر دبئی سے 21جنوری کو کراچی پہنچا، بعد ازاں دوسرے مرحلے میں مسافر پرواز پی کے 332کے ذریعے ملتان آیا۔ ملتان میں قیام کے دوران طبعیت خراب ہوئی جس کے بعد متاثرہ شخص کو نشتر اسپتال منتقل کیا گیا، کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد مسافر کو آئی سولیٹ وارڈ میں منتقل کردیا گیا ہے۔خیال رہے کہ کروناوائرس کی پاکستان منتقلی کے خدشے کے پیش نظر باچاخان ایئرپورٹ پر حفاظتی اقدامات کیے جانے لگے ہیں، ایئرپورٹ پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے نئی اسکریننگ کے انتظامات کیے گئے۔

خلیجی ممالک سے آئی پروازوں کے مسافروں کو ہیلتھ کاو ¿نٹر سے گزرا جارہا ہے، ہیلتھ کاو ¿نٹر پر محکمہ صحت کی جانب سے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف دن رات موجود ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان نے کرونا وائرس کی ممکنہ خطرے کے پیش نظر عالمی لیبارٹریوں سے رابطہ کرلیا ہے۔ کیونکہ وائرس کی پاکستان میں تشخیص کی سہولت نہیں ،رپورٹ ہونیوالے مشتبہ کیسز کے سیمپلزبین الاقوامی لیبارٹریز بھیجے جائیں گے۔ وزارت صحت نے کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے چین، ہانگ کانگ اور ہالینڈ کی لیبارٹریوں سے رابطہ کرلیا ہے۔
۔۔۔۔
 پاکستان نے کرونا وائرس کی ممکنہ خطرے کے پیش نظر عالمی لیبارٹریوں سے رابطہ کرلیا ہے، کیونکہ وائرس کی پاکستان میں تشخیص کی سہولت موجود نہیں ہے چنانچہرپورٹ ہونیوالے مشتبہ کیسز کے سیمپلزبین الاقوامی لیبارٹریز بھیجے جائیں گے۔ 

احتیاطی تدابیر
بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا جائے۔ کسی کی بھی آنکھ ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کیجیے۔


کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.