پاکستانی پرچم

منصور مہدی


اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پاکستان کے تمام شہروں میں پاکستانی پرچم کی فروخت شروع ہو جاتی ہے۔بازاروں اور گلی کوچوں میں سٹال بن جاتے ہیں جہاں پر کپڑے اور کاغذ کے مختلف سائز pakistanflag.jpgکے پرچم دستیاب ہوتے ہیں جبکہ لاتعداد رنگوں میں بیج بھی فروخت ہوتے ہیں جن پرپرچم اورتحریک آزادی کے ہیروز کی تصویریں بنی ہوتی ہیں۔جولائی کے آخر سے 14اگست تک یہ کاروبار عروج پر ہوتا ہے ۔ہر عمر کے بچے ، بچیاں ،مرد ، عورتیں ، جوان اور بوڑھے خریداری کرتے نظر آتے ہیں ۔ہر فرد آزادی کے جشن میں شریک ہونے کیلئے اپنے مکانوں ، دفتروں ، دکانوں ، گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں ، سائیکلوں اور ریڑھیوں پر یہ پرچم لگاتے ہیں۔بازاروں میں فروخت ہونے والے یہ پرچم ، جھنڈے اور جھنڈیاں بظاہر تو پاکستانی جھنڈے سے مشابہ ہوتے ہیں مگر ان سب کا رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔کیونکہ اس کاروبار سے منسلک لوگ جھنڈے کی تیاری جھنڈے سے محبت کے تحت نہیں کرتے اور نہ ہی وہ جھنڈے کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں بلکہ ان کا مقصد اس موقع پر کاروبار کرنا اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتا ہے۔یہ تمام جھنڈے اور جھنڈیاں ایک دوسرے سے رنگ میں مختلف ہوتے ہیں ۔کسی میں سبز رنگ زیادہ ہوتا ہے اور کسی میں کم ہوتا ہے، سبز حصے اور سفید حصے کی تقسیم مختلف ہوتی ہے حتیٰ کہ چاند اور ستارے کی بناوٹ اور جگہ میں فرق ہوتا ہے لیکن پاکستانی شہری حب الوطنی کے تقاضے کے تحت یہ سب کچھ پاکستان کے پرچم کے نام پر ہر سال خریدتے ہیں۔
پاکستان کے قومی پرچم کا ڈیزائن امیر الدین قدوائی نے قائد اعظم کی ہدایت پر مرتب کیا تھا۔یہ گہرے سبز اور سفید رنگ پر مشتمل ہے جس میں تین حصے سبز اور ایک حصہ سفید رنگ کا ہوتا ہے۔سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے جبکہ سبز حصے کے بالکل درمیان میں چاند(ہلال) اور پانچ کونوں والا ستارہ ہوتاہے، سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی اور ستارے کا مطلب روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے۔کسی سرکاری تدفین کے موقع پر' 21'+14', 18'+12', 10'+6-2/3', 9'+6-1/4سائز کا قومی پرچم استعمال کیا جاتا ہے اور عمارتوں پر لگائے جانے کے لئے 6'+4' یا3'+2'کا سائز مقرر ہے۔سرکاری گاڑیوں اور کاروں پر12"+8"کے سائز کا پرچم لگایا جاتا ہے جبکہ میزوں پر رکھنے کے لئے پرچم کا سائز 6-1/4"+4-1.4" مقرر ہے۔پاکستان کے قومی پرچم کے لہرانے کی تقریبات پاکستان ڈے(23مارچ)،یوم آزادی(14اگست)،یوم قائد اعظم(25دسمبر) منائی جاتی ہیں یا پھر حکومت کسی اور موقع پر لہرانے کا اعلان کرے۔ اسی طرح قائد اعظم کے یوم وفات(11ستمبر) ،علامہ اقبال کے یوم وفات(21اپریل) اور لیاقت علی خان کے یوم وفات(16اکتوبر) پر قومی پرچم سرنگوں رہتاہے یا پھر کسی اور موقع پر کہ جس کا حکومت اعلان کریں، پرچم کے سرنگوں ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں پرچم ڈنڈے کی بلندی سے قدرے نیچے باندھا جاتاہے ۔ اس سلسلے میںبعض pak-flag.jpgافراد ایک فٹ اور بعض دو فٹ نیچے بتاتے ہے۔سرکاری دفاتر کے علاوہ قومی پرچم جن رہائشی مکانات پر لگایا جا سکتاہے ان میں صدر پاکستان ، وزیراعظم پاکستان ،چیئرمین سینٹ ، سپیکر قومی اسمبلی، صوبوں کے گورنر ،وفاقی وزارء یا وہ لوگ جنہیں وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہو، صوبوں کے وزارءاعلیٰ اور صوبائی وزیر ، چیف الیکشن کمشنر ،ڈپٹی چیئرمین آف سینٹ ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر ،دوسرے ممالک میں پاکستانی سفیروں کی رہائش گاہیں شامل ہے ۔پہلے ڈویژن کے کمشنر اور ضلع کے ڈپٹی کمشنرکو بھی اپنی رہائش گاہوں پر قومی پرچم لگانے کی اجازت تھی ۔ قبائلی علاقوں کے پولیٹیکل ایجنٹ بھی اپنے گھر پر قومی پرچم لگا سکتے ہے۔جبکہ اس ہوائی جہاز ، بحری جہاز اور موٹر کار پر بھی قومی پرچم لہرایا جاتا ہے کہ جس میں صدر پاکستان ،وزیر اعظم پاکستان ،چیئرمین سینٹ ، سپیکر قومی اسمبلی ،چیف جسٹس آف پاکستان ،صوبوں کے گورنر ، صوبوں کے وزارءاعلیٰ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سفر کر رہے ہوں۔
پاکستانی پرچم کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے ایک ضعیف العمرشخص مولوی محمد یوسف نے بتایا کہ جب پاکستان کی آزادی کے لئے تحریک چل رہی تھی تو اس وقت میں 17یا18سال کا تھا ان تحریکوں میں میں نے اور میرے دیگر ساتھیوں نے حصہ لیا تھا اور جب قائد اعظم اسی سلسلے میں لاہور آئے تھے تو میں بھی انھیں دیکھنے ریلوے سٹیشن گیا تھا اس وقت لوگوں کا جوش دیکھنے کے قابل تھا۔انھوں نے کہا کہ یہ ملک حاصل کرنے کے لئے جوجو قربانیاں دی گئی وہ آج بھی خون کے آنسو رلاتی ہیںجب بھارت سے ہمارے مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے آکر والٹن میں ٹھہر رہے تھے تو ان کی حالت دیکھ کر جو ہماری حالت ہوتی تھی وہ ناقابل بیان ہے۔انھوں نے بتایا کہ شاید فروری1947کی بات ہے کہ تحریک آزادی کے سلسلے میں ایک جلسہ مال روڈ پر ہوا تھا اور یہ طے پایا تھا کہ مسلم لیگ کے جھنڈے کو اسمبلی کی عمارت پر لگایا جائے گا اگرچہ ہم اس میں تو کامیاب نہیں ہوسکے مگر جس آدمی کے ہاتھ میں جھنڈاتھا جب اس سے انگریز پولیس والوں نے جھنڈا چھیننے کی کوشش کی تو وہ ڈنڈوں سے زخمی تو گیا مگر انھیں جھنڈا نہیں دیا اور نہ ہی گرنے دیا اور اب جب ہم یوم آزادی یعنی14اگست کو قومی پرچم کی توہین دیکھتے ہیں اور اسے گلیوں بازاروں اور نالوں میں گرا ہوا دیکھتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔اس بارے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائے کہ پرچم کی توہین کرنے والوں کو سزا دی جائے۔اندرون لاہور شہر کے رہائشی 90سالہ حاجی عبدالکریم نے بتایا کہ ہم بھارت کی ریاست اتر پردیش کے رہنے والے ہیں جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو میرے والد جو مسلم لیگ میں تھے اور مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حامی تھے انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا مگر ہمارے دیگر رشتے داروں اور عزیزوں نے وہی رہنے کو ترجیح دی ۔ہم دوبھائی اور چار بڑی بہنیں تھیں جو شادی شدہ تھیں لہذا ہمارے والد ، والدہ اور ہم دو بھائی اللہ کا نام لے کر پاکستان آنے کے لئے روانہ ہوگئے ہم فیروزپور کی طرف سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے راستے میں ہم نے بہت سے مصائب برداشت کیے جب ہم پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے تو پتوکی کی طرف آتے ہوئے ایک گروہ جو پتہ نہیں کہ سکھوں کا تھا یا مال اسباب لوٹنے والے لٹیرے تھے انھوں نے ہمارے قافلے پر حملہ کردیا اس وقت ہمارے قافلے میں 60/70کے قریب مرد ،عورتیں اور بچے تھے اس حملہ میں میرے والد شہید ہوگئے اور ہم دونوں بھائی اور والدہ زندہ بچ گئی یہاں پر ہم نے کیسے زندگی شروع کی اور کیسے کیسے حالات کا مقابلہ کیا یہ ایک بہت طویل کہانی ہے۔مگر اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے ہم لوگوں نے بڑی بڑی قربانیاں دیں ہیں ہزاروں لوگوں نے اپنی جانین پیش کیں تو ہزاروں عورتوں کو اپنی عزتوں کی قربانی پیش کرنی پڑی سیکڑوں بچوں کو نیزوں کی نوکوں میں پرو دیا گیا۔ مگر اب حکمرانی کے انداز دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ یوم آزادی جوش وخروش سے ضرور منانی چاہئیے اس سے ہمارے اسلاف کی دی ہوئی قربانیوں کی یاد تازہ ہوتی ہے مگر اس موقع پر قومی پرچم کی توہین اور گلیوں بازاروں میں گرا ہوا دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں ایک تجویز پیش کی کہ جیسے قرآنی صفحات کے لئے جگہ جگہ ڈبے نصب ہیں اسی طرح یوم آزادی کے موقع پر جگہ جگہ ڈبے نصب کیے جانے چاہیے تاکہ گرے ہوئے جھنڈوں اوجھنڈیوں کو اٹھا کر ان میں ڈال دیا جائے۔انھوں نے لوگوں سے بھی اپیل کی کہ وہ قومی پرچم کی توہین نہ کریں اور اسے جس شوق سے لگاتے ہیں بعد میں اسے اتار لیا کریں۔ انھوں نے جھنڈے بنانے والوں سے بھی اپیل کی کہ وہ جھنڈے کی تیاری میں اس کے اصول اور رنگوں کا خیال رکھا کریں۔وحدت کالونی کے رہائشی امجد حسین نے کہا کہ یوم آزادی گزرنے کے بعد مکانوں اور دوکانوں پر پرچم لگے لگے دھوپ ،بارشوں سے خراب ہو جاتے ہیں اور آخر کار تیز ہواﺅں سے پھٹ جاتے ہیں ۔ان لوگو کو چاہیے کہ وہ یوم آزادی گزرنے کے بعد انھیں اُتار لیا کریں اور حفاظت سے اگلے سال کے لئے رکھ لیا کریں۔چھٹی جماعت کے طالب علم اخلاق حسین کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال سے میرے ہم عمر دوستوں نے ایک پروگرام شروع کیا ہوا ہے اور ہم 14اگست کے بعد گلیوں میں گری ہوئی جھنڈیوں کو اٹھا کر جمع کر تے ہیں اور اس سال بھی ایسا ہی کرنے کا پروگرام ہے ۔انھوں نے بتایا کہ میرے بڑے بھائی نے پچھلے سال ایک واقع سنایا تھا کہ کراچی میں تقریباً5/6سال قبل ایک بچہ جو چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا سڑک پر گری ہوئی قومی پرچم کی جھنڈی کو اٹھاتے ہوئے ایک کار کی زد میں ہلاک ہو گیا تھا تو اس کے والدین نے اخبار والوں کو بتایا تھا کہ یہ بچہ شروع سے ہی ملک اور پرچم سے محبت کرتا تھا اور گلیوں اور بازاروں سے گزرتے ہوئے گری ہوئی جھنڈیوں کو اٹھا لیتا تھا اور اسی طرح ایک جھنڈی اٹھاتے ہوئے کار کی زد میں آگیا اورشہید ہوگیا ۔اخلاق حسین نے بتایا کہ جب میں نے یہ واقعہ سنا تو میں نے اپنے دوسرے دوستوں کو بھی سنایا اور اس طرح ہم نے گلیوں بازاروں میںگرے ہوئے قومی پرچم کی جھنڈیاں اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
اندرون موری گیٹ میں واقع ایک پریس کے مالک نے جھنڈے اور جھنڈیوں کے مختلف کلروں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس تو جیسا بھی ڈیزائن آتا ہے ہم چھاپ دیتے ہیں اور چونکہ ہم میں سے بہت سے لوگ انپڑھ ہوتے ہیں تو ہمیں نہیں معلوم کہ قومی پرچم کا اصل رنگ کیا ہے? اسکا سائز کیا ہے?جبکہ ایک اور پریس کے مالک نے چوہدری محمد اکرم نے بتایا کہ ہمارے ملک میں ایک تو ہر چیز میں ملاوٹ ہوتی ہے اور دو نمبر چیزیں بازاروں میں بکتی ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ سیاہیاں بھی دو نمبر ملتی ہے اور جب لڑکے کو بازار سے سبز رنگ لانے کا کہتے ہیں تو اصل سبز نہیں ہوتا جبکہ ایسے بھی رنگ ملتے ہیں کہ جو چھاپنے کے بعد خشک ہو کر پھیکے پڑ جاتے ہیں اور رنگ تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ بعض ایسا کاغذ ہوتا ہے جس پر کوئی بھی چیز چھاپنے کے بعد اس کا اصل رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ہمارے پاس ڈیزائن اور پلیٹیں لگی ہوئی آتی ہیں اورہم ان کے مطابق چھاپ دیتے ہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.