لبنان کے خلاف اسرائیل کی محاذ آرائی کو 14روز ہونے کو ہیں
منصور مہدی
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق 12سالہ روس افغان جنگ کے نتیجے میں روسی معیشت اس حد تک کمزور ہو گئی کہ آخرکار روس کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔اسی طرح آج کے دور میں امریکی معیشت روس کی نسبت چار گنا زیادہ مضبوط ہے لہذا اسے افغانستان سے واپس جانے کیلئے روس کی نسبت چار گنا زیادہ وقت لگے گا یعنی 48سال بعد امریکہ پسپائی اختیار کرے گا۔لیکن اگر امریکہ کیلئے دو محاذ کھول دئیے جائیں جیسا کہ افغانستان کے بعد عراق میں محاز کھل چکاہے تو امریکہ کو پسپائی اختیار کرنے میں24سال لگیں گے اور اسی طرح اگر مزید محاذ کھلتے گئے تو یقیناً امریکہ کی معیشت بھی جلد ہی جواب دے جائے گی اور وہ جلد ہی ان بیرونی محاذوں سے پسپا ہو کر واپس اپنے قلعے میں چلا جائے گا۔چنانچہ ایسے میں امریکہ مخالف قوتیں اسی کوشش میں لگی ہوئی ہیں کسی طرح امریکہ کو مجبور کیا جائے کہ وہ ایران اور اس کے بعد شام اور اس کے بعد پاکستان میں اپنے محاذ کھول لے تا کہ اسکا بھی روس جیسا حشر جلد سے جلد ہو جائے۔مگر شاید امریکی پالیسی سازوں کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ پہلے ہی اسکی مارکیٹوں پر چین اور دیگر ممالک چھائے چلے جا رہے ہیں اور افغان اور عراق محاذ پر ماہانہ 5بلین ڈالر اور سالانہ60بلین ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اور ہزاروں امریکی جوان ہلاک اور ضائع ہو رہے ہیںجبکہ اگلے سال سےیہ اخراجات 87بلین ڈالر ہو جائیں گے۔لہذا ایسے میں امریکہ نے اسرائیل کو تیار کیا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو بنیاد بنا کر ایران پر حملہ کرے تا کہ ایک تو امریکہ اپنا بدمعاش ریاستوں کا ایجنڈا مکمل کر سکے اور دوسرے اپنے فوجیوں کی مزید ہلاکتوں سے بچ سکے۔ جیسا کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ بات شائع ہوتی رہی کہ اسرائیل ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے چنانچہ ایسے میں انٹی اسرائیل قوتوں نے اسرائیل کو لبنان میں مصروف کر دیا ۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیل لبنان سے فراغت کے بعد اس قابل رہے گا کہ وہ ایران یا شام کے خلاف محاذ آرائی کر سکے۔
لبنان کے خلاف اسرائیل کی محاذ آرائی کو 14روز ہونے کو ہیں۔ اب تک ان حملوں میں کم از کم 350سے زائدلبنانی افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے بیشتر عام شہری ہیں۔ دوسری جانب حزب اللہ کے راکٹ حملوں میں 40 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے تیرہ عام شہری ہیں۔ فی الحال اس تشدد آمیزی میں کوئی کمی آتی دکھائی نہیں دے رہی۔اسرائیلی فضائیہ لبنان پر روزانہ 40سے80حملے کر رہی ہے۔بارہ دن کی لڑائی میں ابتک اسرائیلی حملوں میں پانچ لاکھ کے قریب افراد بے گھر بھی ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق لبنان میں انسانی المیے میں ہر گزرتے ہوئے گھنٹے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور زخمیوں کے لیئے طبی امداد پہنچانا ناممکن ہے کیونکہ اسرائیلی حملوں سے سڑکیں اور پل تباہ ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کی پالیسی ہے جو کوئی بھی اس پر حملہ کرے گا اس کو اس قیمت ادا کرنی پڑے گی۔اس پالیسی کو ٹھیک ثابت کرنے کے لیے اسرائیل کے پاس یہ دلیل ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایسا ہی ہو سکتا ہے۔لیکن اسرائیل کا اپنا ایجنڈا بھی ہے اور وہ اس ایجنڈے پر اتنی ہی طاقت سے عمل کرتا ہے جتنی طاقت اس کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔اسرائیل کا ایجنڈا ہے کہ حزب اللہ کی طاقت کو کم کیا جائے کیونکہ اسرائیل کو حزب اللہ سے ماضی کے کئی پرانے حساب بھی چکانے ہیں۔اسرائیلی سرحدوں کو حزب اللہ سے ہمیشہ خطرہ رہا ہے اور حال ہی اس کے دور تک مار کرنے والے راکٹ لانچر کی صلاحیت سے یہ خطرہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔
حزب اللہ نے اسرائیلی شہر حیفہ اور اسرائیل کے بحری جہاز پر کامیاب حملے کر کے ثابت کیا ہے کہ حزب اللہ کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔اسرائیل کے نو منتخب وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے ہیفا میں حزب اللہ کے حملے کے بعد سنگین نتائج کی دھمکی ہے۔ اس راکٹ حملے میں آٹھ اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے۔اسرائیلیوں کی ہلاکت کے علاوہ اس حملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ کی پہنچ اسرائیل کے آبادی کے لحاظ سے تیسرے بڑے شہر تک ہو چکی ہے۔اسرائیل نے پہلا آپریشن 1993 میں کیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران اس نے بری فوج کا استعمال کرتے ہوئے لبنان میں حزب اللہ کے مراکز پر حملہ کیا۔تین سال بعد اسرائیل نے ایک اور حملہ کیا جس میں اس نے صرف ایئرفورس کا استعمال کیا۔اس حملہ میں اسرائیل نے بیس ہزار شیل لبنان میں فائر کیے جبکہ حزب اللہ نے چھ سو راکٹ اسرائیل میں داغے۔پچھلے اسرائیلی آپریشن اور موجودہ آپریشن میں کچھ مماثلتیں ہیں۔پچھلے آپریشن میں بھی اسرائیل نے لبنان کے پاور سٹیشنوں، سڑکوں، پلوں کو نشانہ بنایا تھا جبکہ اس مرتبہ بھی وہ یہی کچھ کرتا نظر آتا ہے۔پچھلا آپریشن سولہ دن جاری رہا تھا اور اگر اس کو بنیاد بنا کر دیکھا جائے تو اسرائیل کے پاس لبنان میں کارروائی کے مزید کچھ دن باقی ہیں۔موجودہ دور میں لیزر گائیڈڈ میزائیل کی وجہ فوجی کمانڈروں کو سہولت ہے کہ وہ زمینی حملہ کیے بغیر بھی اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔مگر ایسا ممکن نہیںیہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کیا اسرائیل حزب اللہ کی طاقت کو اتنا کم کر سکتا ہے کہ وہ لبنانی فوج کے قابو میں آ سکے۔ اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ ایران اور شام حزب اللہ کی کارروائیوں کے ذمہ دار اور وہ اسے ایسا کرنے پر اکسا رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسرائیل شام کے خلاف بھی کوئی کارروائی کرے گا کیونکہ ایران تک وہ شاید پہنچ نہ سکے۔خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل شام کے خلاف بھی کارروائی کرسکتا ہے جو علاقے میں اسرائیل کے مخالفوں میں سب سے طاقتور ہے۔جبکہ امریکہ علاقے میں امن قائم کرنے کے اپنا کردار ادا کرنے سے اسی وجہ سے ہچکچا رہا ہے اور اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔جی ایٹ ممالک نے بیان جاری کیا ہے جس میں اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا اور ساتھ اسرائیل سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور لبنان اور غزہ میں اپنی کارروائی بند کرے۔عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کی کارروائی سے تما م علاقہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔مشرق وسطیٰ پہلے بھی ایسی صورتحال سے دوچار ہو چکا ہے لیکن اس کی بہرحال کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اس دفعہ پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا یا نہیںلیکن ایک بات واضح ہے کہ اس مسئلے کو کوئی آسان حل بھی موجود نہیں ہے۔
لبنان پر اسرائیل کی شدید بمباری اور ملک کے جنوب میں فوج کشی کے نتیجہ میں دارالحکومت بیروت کا ایک بڑا علاقہ کھنڈر بن چکا ہے۔ ہوائی اڈہ تباہ ہوچکا ہے، بہت سے شہر تاراج ہوگئے ہیں۔بندگارہیں مسمار ہوگئی ہیں۔ ساڑھے تین سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اقوام متحدہ کے مطابق ایک تہائی بچے ہیں۔ پانچ لاکھ سے زیادہ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ جنوبی لبنان سے جو لوگ اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہورہے ہیں وہ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غرض پورا لبنان اسرائیلی محاصرہ میں ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ لبنان پر اس کے حملوں کا مقصد اول اپنے ان دو فوجیوں کی رہائی ہے جو حزب اللہ نے دو ہفتہ قبل پکڑ لیے تھے اور دوم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شدت پسند تنظیم حزب اللہ کا قلع قمع کرنا ہے جس کے سامنے چھ سال قبل جنوبی لبنان پر قابض اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے تھے اور اس پورے علاقہ سے جس پر اسرائیلی فوجیں اٹھارہ سال تک مسلط رہیں ہتک آمیز انداز سے پسپا ہونا پڑا تھا۔تو سوال یہ ہے کہ بارہ روز ہوگئے، لبنان تباہ ہوگیا، لبنانی فوجیں نہایت بے بسی اور بے کسی کے عالم میں یہ تباہی دیکھ رہی لیکن حزب اللہ ہے کہ بدستور اسرائیل کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے، لبنان میں اسرائیلی فوجی دستوں کا مقابلہ کر رہی ہےاور اسی کے ساتھ شمالی اسرائیل میں حیفہ اور دوسرے شہروں کو اپنے راکٹوں سے نشانہ بنا رہی ہے۔
کیا طاقت ہے اس کی اور کیا راز ہے اس کی قوت کا؟ اس کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ان حالات کا ذکر ضروری ہے جن کے پس منظر میں یہ تنظیم نمو دار ہوئی۔ لبنان کے آئین میں بھی شیعوں کو اختیارات اور عہدوں کے لحاظ سے تیسرا درجہ دیا گیا۔ صدر کا عہدہ عیسائیوں کے لیے مخصوص ہے۔ وزیر اعظم سنی ہوتا ہے اور شیعوںکو پارلیمنٹ کے اسپیکر کا عہدہ دیا گیا ہے-
حزب اللہ کے بانی ممتاز شیعہ شاعر اور مقتدر رہنما محمد حسین فضل اللہ تھے جنہوں نے اس تحریک کے لیے وجدان ایران کے اسلامی انقلاب سے حاصل کیا تھا- اس کے پہلے سیکرٹری جنرل حسین موسوی تھے جو 1992 میں اسرائیل کے مزائیل کے حملہ میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد 32سالہ حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کی قیادت سنبھالی۔حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے ملک کی سیاست میں شیعوں کو مو¿ثر آواز دینے اور ان کی طاقت کے اظہار کے لیے بیک وقت دو محاذوں پر علم کاوش بلند کیا۔ ایک لبنان کے شیعوں کی غربت اور ناداری کے خاتمہ کے لیے ان کی فلاح بہبود کے شعبہ میں کام شروع کیے۔ ہسپتال اور شفاخانے قائم کیے۔ تعلیمی اداروں کا جال پھیلایا۔ شیعہ بے روزگاروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے اور بڑے پیمانہ پر خیراتی کام شروع کیے۔اسی کے ساتھ اپنے اخبارات اور جریدوں کا اجراکیا اور المینار کے نام سے اپنی الگ ٹیلیویژن چینل قائم کیا۔ ان عوامل کی بنا پر حزب اللہ کی جڑیں لبنانی شیعوں میں مضبوطی سے پیوست ہوگئیں۔ دوسرا محاذ جنوبی لبنان پر اسرائیل کے فوجی تسلط کے خاتمہ کا تھا۔ لیکن اس محا ذ پر نبرد آزما ہونے سے پہلے حزب اللہ نے لبنان میں تعینات امریکی فوجوں اور فرانسیسی اور اطالوی امن دستوں کو نشانہ بنایا۔1983 میں حزب اللہ کے خود کش بمباروں نے بیروت میں امریکی فوجوں کی بیرکوں پر حملے کیے اور241 فوجیوں کو ہلاک کردیا جس کے بعد لبنان سے امریکی فوج ایسی پسپا ہوئی کہ اس نے لبنان کا پھر کبھی رخ نہیں کیا- فوجی ماہرین اس بات کو اگر معجزہ نہیں تو نہایت تعجب خیز ضرور قرار دیتے ہیں کہ حزب اللہ کے چھاپہ ماروں نے اسرائیلی فوجوں کے خلاف ایسی موثر جنگ لڑی کہ2000 میں اسرائیلی فوجوں کو جنوبی لبنان سے پسپا ہونا پڑا- اس جنگ میں اسرائیل کے 900 سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے- ان ماہرین کے نزدیک کسی عرب فوج نے اسرائیل کو ایسی خفت آمیز شکست نہیں دی جیسی حزب اللہ کے چھاپہ ماروں نے جنوبی لبنان میں اسرائیل کو دی ہے۔ اسی جنگ میں حزب اللہ کے 46 سالہ سربراہ کا 18 سالہ بیٹا ہادی بھی جاں بحق ہوا جس کے بعد انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے کو بھی حزب اللہ کے سپرد کردیا-پچھلے چھ برس میں حزب اللہ نے اپنی فوجی قوت میں زبر دست اضافہ کیا ہے- بتایا جاتا ہے کہ اس نے تیرہ ہزار راکٹ جمع کیے جن میں سے کئی ہزار فجر پنجم اور زلزال راکٹ اسرائیل کے اندر پچاس کلو میٹر تک مار کر سکتے ہیں اور تل ابیب تک پہنچ سکتے ہیں- بتایا جاتا ہے کہ حزب اللہ نے ویت نام کے چھاپہ ماروں کی طرح جنوبی لبنان میں سرنگوں کا جال بچھا رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی زبردست بمباری کے باوجود حزب اللہ کی قوت برقرار ہے۔ یہی حکمت عملی اب غزہ میں حماس کے چھاپہ مار اختیار کر رہے ہیں۔ پچھلے بارہ روز میں حزب اللہ نے شمالی اسرائیل میں راکٹوں کے 500 حملے کیے ہیں جن سے 35 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں اور آدھے سے زیادہ اسرائیلی شمالی اسرائیل سے فرار ہو گئے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پچھلے انتخابات میں حزب اللہ نے عیسائی عسکری تنظیم کے رہنما مائیکل عون سے اتحاد کیا تھا اور اب بھی وہ اس کے اتحادی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حزب اللہ کو ایران اور شام دونوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔ حزب اللہ کی قیادت کے روحانی پیشوا ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنائی ہیں۔ خود حسن نصر اللہ قم کے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کی شخصیت کو عام طور پر آیت اللہ خمینی اور انقلابی رہنما چے گویرا کا امتزاج قرار دیا جاتا ہے۔
امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور بیشتر مغربی ممالک حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں لیکن پورے عالم اسلام اور عرب دنیا میں حزب اللہ کو مزاحمتی تحریک تصور کیا جاتا ہے۔ فلسطینی اسے اپنی جدو جہد آزادی میں سب سے بڑا اتحادی قرار دیتے ہیں اور دنیا بھر میں مزاحمتی تنظیمیں حزب اللہ کو سب سے بڑی مو¿ثر اور طاقت ور چھاپہ مار تنظیم تسلیم کرتی ہیں جس کی جڑیں عوام میں گڑی ہوئی ہیں۔
اسی بنا پر فوجی ماہرین یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اگر موجودہ جنگ میں اسرائیل حزب اللہ کی فوجی قوت ختم کرنے میں کامیاب بھی ہوگیاجو ممکن نہیں تب بھی حزب اللہ ایک عوامی تحریک کی صورت میں عوام میں زندہ رہے گی ۔اگرچہ اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی بہرحال برابر کی لڑائی نہیں ہے۔ اسرائیل ایک خاصی بڑی طاقت ہے جس کے پاس اعلیٰ معیار کی بری، بحری اور فضائی افواج ہیں۔دوسری جانب حزب اللہ نے اپنا آغاز ایک گوریلا گروپ کے طور پر کیا۔ اگرچہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران اس نے بھی فوجی آلات کا ایک پیچیدہ نظام ترتیب دے لیا ہے لیکن اس کے پاس ان ہتھیاروں میں سے چند ہی ہیں جواسرائیل کو مہیا ہیں۔ دور مار کرنے والے ہتھیاروں کی شکل میں اس کے پاس صرف ادھر ادھر کے میزائل اور راکٹ ہیں۔ ان میزائلوں کی اکثریت قدرے کم فاصلے تک مار کرنے والے کٹوشیا پر مشتمل ہے جو پچیس کلومیٹر تک اپنے حدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔لیکن اسرائیل کے شمالی ساحلی شہر حیفہ پر حالیہ حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حزب اللہ کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کا بھی کوئی نظام موجود ہے۔حزب اللہ کے میزائل سسٹم میں زیادہ تر ایرانی ساخت کے پینتالیس کلومیٹر تک مار کرنے والے فجر-3 ، تقریباً پچھہتر کلومیٹر تک مار کرنے والے فجر-5 اور ان سے زیادہ طاقتور دو سو کلومیٹر تک مار کرنے والے زلزال-2 قسم کے میزائل شامل ہیں۔میزائلوں کے اس مجموعہ کا مطلب یہ ہے اسرائیل کا سب سے بڑا شہر تل ابیب کا زیادہ تر حصہ حزب اللہ کے حملوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ان میزائلوں میں سے کوئی بھی ’گائیڈڈ‘ میزائل نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کا نشانہ شہری آبای ہو تو پھر میزائل کا ٹھیک نشانے پر لگنا بھی کوئی ضروری نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ اسرائیلی بحریہ کے جہاز پر کامیاب حملہ ( اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مصری بحری جہاز پر حملہ) یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ حزب اللہ کے پاس ایرانی ساخت کے ’اینٹی شپ‘ یا بحری جہازوں کو نشانہ بنانے والے قدرے اچھے معیار کے میزائل بھی موجود ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب اللہ نے زبردست فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور ابھی تک راکٹ اسرائیل کی شمالی سرحد سے اندر آ رہے ہیں۔ حزب اللہ کو فضائی حملوں کے ذریعے کوئی بڑا نقصان پہنچانا بہت مشکل ہے۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ سب جو ہم دیکھ رہے ہیں، اسرائیل کی بری فوج کی لبنان پر ایک بڑی چڑھائی کا محض نقطہ آغاز ہے۔بظاہراسرائیل نے ابھی تک اپنی فوج کی کوئی بڑی نقل و حمل بھی نہیں شروع کی جس سے ظاہر ہو کہ وہ کسی بڑی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں جو بات خاص طور پر قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اگر اسرائیل کا حزب اللہ پر ایک بھرپور حملے کا ارادہ ہے تو وہ وادی بقا کی جانب ایک بڑی پیش قدمی کے بغیر ممکن نہیں۔ابھی تک ہمیں اس کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔اس اقدام سے جہاں شام میں خطرے کی گھنٹی بجے گی وہاں اس لڑائی کا دائرہ مزید بڑھ جائے گا۔
بحری جہاز پر میزائل حملے نے اسرائیل کی آنکھیں کھول دی تھیں۔اسرائیلی کی اپنی فوجی کارکردگی بھی کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ یہاں تک کہ خود اسرائیلی مبصرین اس حقیقت کی جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ فلسطینی شدت پسندوں، اور بعد میں حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیلی فوجیوں کو اپنے قبضے میں لے لینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسرائیلی فوج کے ریزرو یونٹ کتنے کاہل اور غیر موثر ہیں۔ حزب اللہ نہ صرف ماضی میں واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ وہ اس قسم کی کارروائیاں کرے گا بلکہ وہ ایسا کر بھی چکا ہے۔ کیا اسرائیل کے ریزرو فوجیوں کی روز مرہ تربیت بہت کم کر دی گیی ہے یا وہ واقعی سست پڑ چکے ہیں۔اسی طرح اسرائیل کے سب سے زبردست بحری جہاز پر حملہ بھی کئی سولات کو جنم دیتا ہے۔اس جہاز پر حملے میں جو میزائل استعمال کیا گیا تھا وہ چینی ساخت کا سی-802 میزائل تھا جو کہ ایک ’لیزر گائیڈڈ‘ میزائل ہے۔ کیا اسرائیلی خفیہ ادارے کو یہ بات نہیں معلوم تھی کہ حزب اللہکے پاس اس نوعیت کے بھی میزائیل ہیں۔اسرائیلی بحریہ کے جہازوں میں نصب الیکٹرانک اور دفاعی نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ہے۔ ایسے دفاعی نظام کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ جہاز کو اس قسم کے حملوں سے بچائے۔مگر یہ سب نطام فیل ہو گیا۔
مشرقِ وسطیٰ پر بات کرتے ہوئے صدر جارج بش نے کہا کہ انہیں شبہ ہے کہ شام، لبنان کی صورتِ حال سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور لبنان میں موجود کچھ عناصر اسے وہاں دوبارہ داخل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ جبکہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم ایہود اولمرت نے دعویٰ کیا ہے کہ حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل کے دو فوجیوں کے قیدی بننے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے جو اپنے جوہری پروگرام سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔صدر بش کے بیان میں شام پر شبہے کا اظہار تو ہے لیکن ایران کے بارے میں کسی قسم کا کوئی ذکر نہیں جبکہ ایہود اولمرت نے صرف ایران کا تذکرہ کیا ہے اور شام کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔صدر بش نے کہا کہ موجود کشاکش کی جڑ حزب اللہ ہے اور اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اس طرح حل کیا جاسکتا ہے کہ شام پر واضح کردیا جائے کہ وہ حزب اللہ کی مدد کرنا بند کرے۔ امریکہ میں شام کے سفیر عماد مصطفیٰ نے صدر بش کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام پر انگلی اٹھانے کی بجائے امریکی انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ اسرائیل پر دباو¿ ڈالے کہ وہ مقبوضہ علاقوں کا معاملہ طے کرنے کی کوشش کرے۔عماد مصطفیٰ نے کہا: ’میرا مشورہ ہے کہ اسرائیلیوں کی پالیسیوں کے پیچھے پیچھے نہیں چلنا چاہیئے کہ دنیا کی ہر بات پر تو رائے دے دی جائے لیکن آنکھوں کا شہتیر دکھائی نہ دے۔ بش انتظامیہ کو چاہیئے کہ اس سے قبل امریکی حکومتوں نے جو کیا تھا وہ کرے اور تمام فریقوں سے بات کرے۔‘ تجزیہ نگاروں کے قریب اب یہ واضح ہورہا ہے کہ امریکی حکمت عملی یہ ہے کہ اسرائیل کی فوجی کارروائی پر دنیا کو جو غصہ ہے اس کا رخ شام کی طرف موڑ دیا جائے۔جبکہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم ایہود اولمرت نے کہا کہ جب تک حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کر دیا جاتا اور اس کے قبضے سے دو اسرائیلی فوجیوں کو رہا نہیں کرا لیا جاتا، لبنان پر اسرائیلی حملے جاری رہیں گے۔پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے، جسے ٹیلی وڑن پر بھی دکھایا گیا، اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرت کا کہنا تھا کہ اسرائیلی مطالبات تسلیم ہونے تک لبنان کے خلاف حملے جاری رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کی فوج کو ملک کے جنوبی حصے پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہوگا۔’ہم جنگ یا براہِ راست کشمکش نہیں چاہتے لیکن اگر یہ ضروری ہوا تو ہم اس سے ڈریں گے نہیں۔ادھر حزب اللہ کے ایک ترجمان حسین نابلسی نے اسرائیلی مطالبات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ایہود اولمرت کے دل میں مئی2000کا کینہ ہے جب حزب اللہ نے اسرائیلیوں کو شکست دی تھی اور انہیں جنوبی لبنان چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ اب وہ انتقام لینا چاہتے ہیں۔ دو سپاہیوں کو چھڑانے کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔
لبنان کے موجودہ خونریز بحران کی فوری وجوہات چاہے جو بھی ہوں لیکن یہ حقیت ہے کہ پچھلے پچاسی سال سے جب کہ پہلی عالم گیر جنگ کے بعد شکست خوردہ سلطنت عثمانیہ کے عرب علاقوں کی برطانیہ اور فرانس کے درمیان تقسیم کے نتیجہ میں لبنان ایک علیحدہ ملک کے روپ میں دنیا کے نقشہ پر ابھرا تھا یہ متواتر ایسی طویل خانہ جنگیوں، تباہ کن بیرونی حملوں اور قتل و غارت گری کے بھنور میں گھرا رہا ہے کہ اس کی نظیر دنیا کے کسی اور خطہ میں مشکل سے ملتی ہے۔اب تک کی پے در پے خانہ جنگیوں میں جاں بحق ہونے والے تین لاکھ سے زیادہ افراد کے خون سے سرخ ہوچکا ہے اور بلند قامت سرو کا درخت عوام کے مصائب سے سر نگوں ہے۔پہلی عالم گیر جنگ سے پہلے لبنان کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کی عرب ولایتوں میں شامل تھا اور یہ وسیع ترشام کا حصہ تھا۔ جنگ کے بعد جب فاتح برطانیہ اور فرانس کے درمیان عرب علاقوں کے حصے بخرے ہوئے تو برطانیہ نے تیل سے مالامال حجاز، بصرہ، کرکوک اور بغداد کے ساتھ فلسطین کی ترک ولایتوں کو اپنی تحویل میں رکھا اور فرانس کے حصے میں شام کا علاقہ آیا۔ گولبنان میں، خاص طور پر اس کے پہاڑوں میں، عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے لیکن پورے ملک میں عیسائیوں اور مسلمانوں کی تعداد برابر برابر ہے۔ سنہ انیس سو تینتالیس میں جب لبنان کا آئین مرتب کیا گیا تو اس وقت انیس سو بتیس کی مردم شماری کے اعداو شمار کے مطابق عیسائیوں کی تعداد اکیاون فیصد اور مسلمانوں کی تعداد اننچاس فیصد قرار پائی لیکن بظاہر ان دو بڑے فرقوں کے ساتھ آئین میں سترہ فرقے تسلیم کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ لبنان کو اقلیتوں کا دیس کہا جاتا ہے۔ بہتر سال قبل کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں میں شیعیوں کی تعداد پیتیس فیصد اور سنیوں کی تعداد بتیس فی صد شمار کی گئی۔ چنانچہ اسی مردم شماری کی بنیاد پر آئین میں مختلف فرقوں کے درمیان مملکت کے اہم عہدے تقسیم کئے گئے اور یہ طے پایا کہ ملک کا صدر ہمیشہ ایک عیسائی ہوگا وزیر اعظم سنی ہوگا اور پارلیمنٹ کا اسپیکر ایک شیعہ ہوگا۔بہتر سال سے اب تک ملک میں کوئی مردم شماری نہیں ہوئی کیونکہ ہر ایک کو یہ خطرہ ہے کہ پچھلی سات دہائیوں کے دوران آبادی کا نقشہ یکسر بدل گیا ہے لہذا اب اگر نئی مردم شماری ہوئی تو اس کے نتیجہ میں عین ممکن ہے کہ آئین نئے سرے سے دوبارہ مرتب کرنا پڑے اور موجودہ حالات میں کوئی بھی مسائل سے بھر پور پٹارے کو کھولنا نہیں چاہتا۔لبنان پر اسرائیل کے موجودہ حملے اور فوج کشی کی تباہ کن آفت نئی نہیں بلکہ اٹھاون سال سے جب سے اسرائیل وجود میں آیا ہے لبنان پر ان آفتوں کے سائے دائمی نظر آتے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیلی مملکت کے قیام کے فورا بعد ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو اپنی سر زمین سے بے دخل اور اپنے گھروں سے بے گھر ہو کر بے سرو سامانی کے عالم میں لبنان میں پناہ لینی پڑی۔پھر سن سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مزید تین لاکھ فلسطینیوں نے یاسر عرفات کے ساتھ لبنان میں سر چھپایا۔لبنان کے عیسائیوں اور ان کے ساتھ شیعوں کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں فلسطینی ان کے ملک پر نہ چھا جائیں اور سیاست کا توازن ہی نہ بگڑ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سن ستر کے عشرہ میں پناہ گزیں فلسطینیوں اور لبنانی عیسائیوں کی عسکری تنظیموں کے درمیان، جن میں کرسچن آرمی پیش پیش تھی، کشمکش اور معرکہ آرائی نے سر اٹھایا۔یہ دلچسپ امر ہے کہ اس وقت جب اس معرکہ آرائی میں عیسائیوں کو شکست ہوتی نظر آئی تو شام نے ان عیسائیوں کی مدد کے لئے اپنی چالیس ہزار فوج لبنان بھیجی اور شامی فوجوں اور مارونی عیسائیوں نے مل کرفلسطینیوں کو بیروت سے نکال دیا اور انہیں جنوبی لنبان میں دھکیل دیا۔
ان حالات میں جنوبی لبنان سے فلسطینیوں کے اثر کا قلع قمع کرنے کے لیئے اسرائیل نے سن اٹہتر میں لطانی دریا کو عبور کر کے لبنان پر فوج کشی کردی لیکن اقوام متحدہ کی مداخلت اور اس علاقہ میں امن فوج کی تعیناتی کے بعد تین ماہ کے اندر اندر اسرائیلی فوج کو اس علاقہ سے واپس جانا پڑا۔1982 میں اسرائیل نے پھر ایک بار لبنان پر حملہ کیا اور اس کی فوجیں بیروت تک پہنچ گئیں۔ کمان ان فوجوں کی آریل شیرون کے ہاتھ میں تھی۔ اسی دوران بیروت کے فلسطینی کیمپوں صبرا شطیلہ میں شیرون کی نگرانی میں مارونی عیسائی عسکری تنظیم ساو¿تھ لبنان آرمی کے دستوں نے بڑے پیمانہ پر قتل عام کیا۔ اس وقت لبنان کے صدر بشیر جمائیل تھے جو عیسائی ملیشیا کے روح رواں تھے۔ اس قتل عام کے بعد صدر جمائیل قتل کردئے گئے۔ ان کے قتل کے بعد اسرائیلی حکمت عملی کو زبردست زک پہنچی۔ اس دوران حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجوں کے خلاف مزاحمت شروع کی اور آخر کار سن دو ہزار میں اسرائیلی فوج کو بغیر کسی سمجھوتہ کے جنوبی لبنان سے نکلنا پڑا۔گزشتہ سال لبنان میں حالات نے پھر ایک بار پلٹا کھایا۔ سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل نے، جس کا الزام شام پر عائد کیا گیا، لبنان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس قتل کے بعد لبنان میں شام کے خلاف تحریک نے ایسی شدت اختیار کی اور باہر سے امریکہ اور مغربی ملکوں کا اس بلا کا دباو¿ پڑا کہ شام کو لبنان سے اپنی فوجیں واپس بلانی پڑیں۔شام کی فوجوں کی مراجعت کے بعد پچھلے سال اپریل میں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں عجیب و غریب اتحاد نمو دار ہوئے۔ ایک طرف رفیق حریری کے صاحب زادہ کے اتحاد میں سنی مسلم اور دروز شامل ہوئے تو دوسری طرف حزب اللہ کے ساتھ شیعوں کی دوسری تنظیم امل نے مل کر کٹر عیسائی رہنا مائیکل عون سے ھاتھ ملائے۔ نتیجہ یہ کہ حریری کے نامزد وزیر اعظم فواد سینوراکو اپنی حکومت میں حزب اللہ کے دو وزیروں کو بھی شامل کرنا پڑا۔ غرض اس حکومت میں شام کے حامی بھی ہیں اور کٹر مخالف بھی۔ فلسطینیوں کے حامی بھی ہیں اور حزب اللہ کے مخالف بھی۔ بھان متی کے اس کنبہ کی وجہ سے موجودہ بحران میں حکومت یکسر مفلوج نظر آتی ہے۔اب اسرائیل کے حملوں اور فوج کشی کے نتیجہ میں لبنان پھر ایک بار نہایت سنگین بحران سے دوچار ہے اور بلا شبہ یہ بحران اس خانہ جنگی سے بھی زیادہ سنگین اور تباہ کن نظر آتا ہے جس سے لبنان سن پچھتر سے سن نوے تک گزرا ہے۔ اس خانہ جنگی کے بعد لبنان میں جو کچھ تعمیر نو ہوئی تھی وہ سب تاراج ہو چکی ہے۔ بیروت اور دوسرے شہر اور بندرگاہیں کھنڈر بن گئی ہیں۔ تین سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ایک تہائی بچے ہیں۔ پانچ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ لبنان کے وزیر خزانہ کا اندازہ ہے کہ اب تک دو ارب ڈالر کا ملک کو نقصان ہو چکا ہے۔ان تمام تباہ کاریوں اور اموات اور غارت گری کے باوجود اسرائیل نہ تو اپنے ان دو فوجیوں کو رہا کراسکا ہے جن کے پکڑے جانے پر اسرائیل نے یہ جنگ شروع کی تھی اور نہ وہ ابھی تک حزب اللہ کا قلع قمع کر سکا ہے جس کے لیئے وہ جنونی انداز سے یہ جنگ لڑ رہا ہے اور جس میں بلا شبہ اسے امریکہ کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔مگر یہ وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ کیا اسرائیل اس قابل رہے گا کہ وہ لبنان سے آگے بڑھنے کا سوچے اور امریکہ مخالف قوتیں امریکہ کو واپس اسکے قلعے میں بھیجنے میں کب کامیاب ہو گی۔
[...] بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق 12سالہ روس افغان جنگ کے نتیجے میں روسی معیشت اس حد تک کمزور ہو گئی کہ آخرکار روس کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔اسی طرح آج کے دور میں امریکی معیشت روس کی نسبت چار گنا زیادہ مضبوط ہے لہذا اسے افغانستان سے واپس جانے کیلئے روس کی نسبت چار گنا زیادہ وقت لگے گا یعنی 48سال بعد امریکہ پسپائی [...]
جواب دیںحذف کریں[...] بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق 12سالہ روس افغان جنگ کے نتیجے میں روسی معیشت اس حد تک کمزور ہو گئی کہ آخرکار روس کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔اسی طرح آج کے دور میں امریکی معیشت روس کی نسبت چار گنا زیادہ مضبوط ہے لہذا اسے افغانستان سے واپس جانے کیلئے روس کی نسبت چار گنا زیادہ وقت لگے گا یعنی 48سال بعد امریکہ پسپائی [...]
جواب دیںحذف کریں