خود کشی کا رجحان
منصور مہدی
17جون2010کے اخبارات میں لاہور کے مضافاتی علاقے خان پور خاص کے رہائشی اکبر کی بیوی بچوں کو زہر دینے کے بعد خود کشی کرنے کی خبر نے نہ صرف لاہور بلکہ ملک بھر کے سنجیدہ طبقوں کو رنجیدہ کر دیا۔40سالہ اکبر کے چھ بچے تھے جن میں ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں شامل تھیں۔ وہ ہوزری کا کام کرتا تھا مگر بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہوزری کی فیکڑی بند ہو گئی اور اکبر بے روزگار ہو گیا۔ چھ بچوں اور بیوی کا پیٹ پالنے کیلئے اکبر کے پاس سوائے نوکری کے کوئی اور دیگر وسائل نہیں تھے۔ اکبر نے مختلف جگہوں پر کام تلاش کیا مگر اسے ہر جگہ سے مایوسی ملی کیونکہ لوڈشیڈنگ کے سبب ہر کاروبار میں پہلے ہی تنزلی واقع ہو رہی تھی چہ جائے کہ نئے روزگار کے وسائل میسر ہوتے۔اکبر کے گھر فاقوں کی نوبت پہنچ گئی۔ اکبر کے بھائی و عزیز و اقارب نے کسی حد تک اسکی مدد کی مگر کب تک ؟ اکبر نے بیوی بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کیلئے آخر کارکچھ دوستوں سے رقم ادھار لی مگر واپس نہ کر سکا۔ پھر اس نے بیوی کے زیورات علاقے ہی کے ایک سود خور کے پاس گروی رکھ کر15ہزار روپے لیے جو بچوں کی فیسیوں، یوٹیلیٹی بلوں اور آٹے دال پر خرچ ہو گئے۔ مقررہ مدت کے بعد سود خور کا مطالبہ شروع ہو گیامگر اکبر کے پاس یہ رقم واپس کرنے کیلئے کوئی ذریعہ نہ بن سکا اور نہ ہی نوکری مل سکی جس پر وہ مایوسی کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ 16جون کو آخر کار اکبر نے مرنے کا فیصلہ کر لیا کہ روز روز مرنے کی بجائے ایک ہی دن مر جانے کو ترجیح دی۔ مگر جب بچوں اور بیوی کا خیال آیا کہ اس کے بعد ان کا کیا بنے گا تو اس نے تین بڑی بیٹیوں اور بیوی کو بھی زہر دیکر خود بھی زہریلی گولیاں کھا لی۔
لاہورپیپلز لائرز فورم کے صدر شاہد حسن ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں غربت اور بیروزگاری کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہاہے پاکستان کی تقریباََ 85فیصد آبادی غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ پاکستان کے سماجی ،اقتصادی اور صحت سے متعلق بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر خود کشی کے واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہاہے۔بیروزگاری اور غربت کی ابتر صورتحال کے باعث حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اگر فوری طور پران واقعات کی روک تھام کے لئے عملی طور پر کوئی موئثر حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو حالات کی سنگینی کو کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ اسلام میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیا اور پاکستان کےقانون کے مطابق بھی خود کشی کی کوشش کرنا جرم ہے اور اس سلسلے میںفوری طور پر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 325کے تحت مزید کاروائی کی جا سکتی ہے لیکنملکی حالات ابتر ہوجانے کی وجہ سے خود کشی کے واقعات بلا ناغہ ہو رہے ہیں۔ خود کشی کے اسباب کئی ہو سکتے ہیں جن میں بے روزگاری،غربت،شدید بے عزتی،ندامت،نوجوانوں میں پسند کا رشتہ نہ ہونا،مسلسل بیماری ،گھریلو جھگڑے اور لڑکیوں کےلئے عرصہ دراز تک مناسب رشتہ نہ آنا وغیرہ شامل ہیںمگر سب سے اہم بے روزگاری کا بڑھنا ہے کیونکہ انسان کی سب سے پہلی ضرورت خوراک ہے اگر کسی کو روٹی ہی نصیب نہ ہوسکے گی تو وہ زندہ کیسے رہے گا؟
ہمارے ہاں ملازمت ملنا آسان کام نہیں جب نوجوانوں کو ملازمت نہیں ملتی تو بہت سے نوجوان خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دنیا بھر میں خودکشی کرنے والے نوجوانوں کی تعدادایک تھائی ہے جبکہ پاکستان میں خودکشی کرنے والے افراد میں نوجوانوںکی شرح اموات دو تہائی ہے اور اس میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔اس طرح نوجوانوں کی خود کشی میں بے روزگاری اور غربت ایک بڑا سبب ہے ۔
سماجی کارکن فرح المومنین کہتی ہیں کہ جب کوئی شخص خود کشی کرتا ہے تواسکے ذہنی کرب اور دکھ کی سطح کا شاید کوئی اور درست طور پراندازہ نہ لگا سکے مگر وہ کرب کی انتہائی نچلی سطح پر چلا جاتا ہے کہ جہاں سے واپس آنا اسکے کےلئے ممکن نہیں ہو پاتا اور اس طرح وہ اپنے ہاتھوں سے خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے۔ ایسی موت کا ذمہ دار وہ ماحول ،وہ لوگ اور وہ معاشرہ ہے جس کے ہاتھوں تنگ ہو کر اس نے موت کو گلے لگایا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے اسباب ہیں جن کی بنا پر ایک شخص اپنی عزیز ترین متاع کو خود اپنے ہاتھوں ضائع کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ انھوں نے ایک سماجی تنظیممددگار ریسرچ اینڈ ڈیٹابیس سینٹر کراچی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تنظیم نے چھ ماہ تک روزانہ انگریزی، اردو اور سندھی زبان کے26 مستنداخبارات کا جائزہ لیا اور اس سے حاصل شدہ نتائج کے مطابق معاشرے میں پھیلنے والی مایوسی،عدم اعتماد ، غربت،خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ،بے روزگاری اور احساس محرومی و برتری خودکشی کی جانب راغب کرنے والے عوامل میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جنوری 2000 تا دسمبر 2007کے دوران پاکستان بھر سے خودکشی کے 31349واقعات رپورٹ ہوئے۔جن میں10753 خواتین، 3754 بچوں اور 16842 مرد حضرات شامل ہیں ۔جن میں صوبہ بلوچستان میں 942 واقعات، صوبہ سرحد 2304 ، صوبہ پنجاب 16727 ا ور صوبہ سندھ میں کل 11376 واقعات رونما ہوئے۔چاروں صوبوں سے حاصل کردہ اعداد و شمارکے مطابق صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد سے رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد بہت کم ہے کےونکہ وہاںرونما ہونے والے واقعات منظر عام پر نہیں لائے جاتے اور پنچایئت کمیٹیاں اور علاقائی سطح پر منعقد ہونے والے جرگے ان واقعات پر مکمل اختیار رکھتے ہوئے خود ان کا تصفیہ کرتے ہیں اس کے برعکس پنجاب میں سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے اور سندھ میں رونما ہونے والے واقعات کی تعداد نسبتاََ کم رہی۔ جبکہ2008میں3271افراد اور2009میں3491افراد نے خود کشی کی۔ انھوں نے بتایا کہ ہر ایک لاکھ افراد میں خودکشی کی شرح 24.4 فیصد ہے۔ دنیا میں خودکشی کا سب سے زیادہ شرح رکھنے والے ممالک میں جاپان کا نمبر دوسرا ہے۔ پہلے نمبر پر روس ہے جہاں لاکھ میں سے 30.1 فیصد ہر سال خودکشی کر لیتے ہیں جبکہ جنوبی کوریا تیسرے نمبر پر ہے جہاں ہر لاکھ کے افراد میں سے 23.3 خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ان ممالک میںخودکشی کرنے کا رجحان 50 سے60 سال کی عمر کے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے جو انفرادی یا گروپ خودکشیاں کرتے ہیں۔ امریکا میں2000سے2005 تک خودکشی کے132000واقعات ہوئے۔ جبکہ دنیا بھر میں ہر سال تقریباََ 10لاکھ افرادمختلف وجوہات کی بناپر خود کشی کر لیتے ہیںاورایک محتاط اندازہ ہے کہ 2020تک یہ تعداد 15لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
میو ہسپتال کے ڈاکٹر غلام فرید آغا خان یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خودکشی کے نوے فیصد واقعات کا تعلق ڈپریشن سے ہوسکتا ہے۔پاکستان کی 34 فیصد آبادی عام اعصابی امراض میں مبتلا ہے جس میں زیادہ تر افراد تیس سال سے کم عمر ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی سماجی و معاشی مشکلات نے صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ کردیا ہے جبکہ ان مسائل پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی لوگوں میں مایوسی کو بڑھاتی ہے جو بالآخر ڈپریشن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر فریدکا کہنا ہے کہ مایوسی خودکشی کے عوامل میں سے ایک ہے کیونکہ انسان جتنا ذہنی دباو¿ کا شکار ہوتا ہے اس میں مایوسی اور ناامیدی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں ہر دوسرے منٹ خودکشی سے ایک موت واقع ہورہی ہے۔ خودکشی کے خلاف کام کرنے والی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائڈ پریوینشن (آئی اے ایس پی) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ لوگ خودکشی کرتے ہیں اور ان کی تعداد جنگوں، دہشتگردی کے واقعات اور قتل کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ڈاکٹر فرید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی دماغی صحت کے حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔خودکشی کے رجحان کے سدباب کے لیے لوگوں کے علم اور آگاہی میں اضافہ کرنے اور ان افراد کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو خودکشی کی کوشش کرچکے ہیں یا جو گھر کے کسی فرد کی خودکشی سے متاثر ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ملک میں خودکشی کے لیے کیڑے مار دواو¿ں ، نیند کی گولیاںاور زہر کا استعمال بہت عام ہے۔ خودکشی کی روک تھام کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ان اشیاء تک لوگوں کی رسائی کو کم سے کم کیا جائے ۔ انھوں نے بتایا کہ ماضی میں خودکشی کی شرح کم ہوتی تھی لیکن نوے کی دہائی کے وسط سے اس شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ عورتوں کی نسبت مرد زیادہ خودکشی کرتے ہیں، تاہم اقدام خودکشی کرنے والوں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔جبکہ نوجوان طبقےکی خودکشی نہ صرف ایک المیہ ہے بلکہ عظیم معاشرتی نقصان بھی ہے۔ نوجوانوں کی خودکشی کا محرک بننے والے عوامل میں والدین میں علیحدگی، طلاق اور خاندانی جھگڑے، بچوں کا جنسی استحصال ، شراب اور نشہ آور اشیا کا استعمال شامل ہیں لیکن سب سے اہم غربت اور روزگار کا نہ ملنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں ایسے پروگرام متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو زندگی کے مسائل مثلاً ذہنی دباﺅ اور تنازعات سے نبرد آزما ہونے والے صحت مند طرز زندگی اپنانے کے طریقے سکھائیں۔ تمام تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مشاورت کی سہولت موجود ہونی چاہیے۔
ایدھی فاو¿نڈیشن کے بانی عبد الستار ایدھی کا کہنا ہے کہ ملک میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگای اور استحصال کا نتیجہ ہے۔یہ رجحان مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ ہے، لیکن حکومت کے پاس نہ غربت کے خاتمے کا کوئی منصوبہ ہے اور نہ سرمایہ داروں سے ٹیکس کی وصولی کاکوئی منظم نظام۔ ایدھی کے الفاظ میں:‘حکومت کے پاس ٹیکس وصولی کا کوئی سختی سے قائم نظام نہیں ہے، اِس ملک میں سرمایہ دار، زمیندار، جاگیردار ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں، اور غریب کا مذاق اڑا یا جا رہا ہے۔ایدھی فاو¿نڈیشن کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے بڑے اور چھوٹے شہروں سمیت اب دیہاتوں میں بھی خودکشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جب کہ خودکشی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جِنہیں پولیس کو مطلع کیے بغیر خاموشی سے دفن کر دیا جاتا ہے اور اگر انھیں میں رپورٹ شدہ کیسوں میں شامل کر لیا جائے تو پاکستان میں ہر سال چھ ہزار سے زائد افراد خود کشی کرتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں خودکشی کے ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیںکہ جہاں مسلسل بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے شوہر اور بیوی نے بچوں سمیت احتجاجی خودکشیاں کی ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم علی حیدر کہتے ہیں کہ پاکستان میںخودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح ملکی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہے۔ سرمائے کی طاقت کو استعمال کرکے غریب طبقے کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں‘ حکومت‘ بیوروکریسی‘ اسٹیبلشمنٹ میں سرمایہ دار‘ جاگیردار اورکارخانے دار بیٹھے ہوئے ہیں جو صرف اپنے طبقے کی بہتری کیلئے پالیسی بنا رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاستدان پالیسی سازی میں غریب طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے غربت اور امارات میں خوفناک حد تک فاصلہ پیدا ہوچکا ہے۔ غربت اور امارت میں اتنے بڑے فرق کی وجہ سے سماجی معاشرہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے اور مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے جس وجہ سے خودکشی کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہر روز ملک بھر میں8سے 10افراد خودکشی کررہے ہیں۔ اس تعداد کو کم کرنے کیلئے روزگار کے وسائل میں اضافہ کیا جانا ضروری ہے وگرنہ اس شرح میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ انھوں نے اخبارات کو حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں شاہ پور کانجران کی نواحی بستی خان پور کے اکبر اور اس کی بیوی بچوں کی خود کشی کے علاوہ 7جون کو شاہدرہ کے علاقے میں نوجوان نے بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کرلی تھی۔ اس کی شادی کو محض 6ماہ ہوئے تھے۔ وہ روز گھر سے روزگار کے لیے نکلتا تھا لیکن مایوس لوٹنا پڑتا تھا۔جس کے بعد گھریلو اخراجات کے سلسلے میں اس کا گھر میں جھگڑا رہنے لگا اور ایک رات دلبرداشتہ ہوکر اس نے بھی گندم میں رکھنے والی گولیاں کھالیں جسے فوری طبی امداد کے لئے ہسپتال پہنچایا جہاں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد وہ دم توڑگیا۔ اسی طرح 16جون کی خبر ہے کہ غربت سے تنگ آکر ایک شخص اپنے دو گونگے بچوں کو سکھر میں لاوارث چھوڑ کر چلا گیا۔19جون کو ڈیرہ غازیخان میںایک شخص نے غربت سے مجبور ہو کر خود کشی کر لی۔ صرف دارالحکومت اسلام آباد میں پانچ برس کے دوران 99 خودکشی اور اقدام خودکشی کے واقعات رونما ہوئے جن میں 13 خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ اور اس طرح کی خبریں اب ہمارے یہاں تو روز کی بات ہے۔ ہمارے معاشرے میں مایوسی، عدم اعتماد، غربت، خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، بے روزگاری اور احساسِ محرومی بڑھتا جارہا ہے ۔ حکومت اور سماجی تنظیموں کو ان حالات کی اصلاح کیلئے فوری عملی قدم اٹھانا ہوگا وگرنہ ان خبروں میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں