شرقپور میں جرائم

منصور مہدی


صوبائی دارلحکومت لاہور سے 28کلو میٹر کے فاصلے پرواقع شرقپور شریف کے نواحی علاقوں میں قتل ،ڈکیتی اور زیادتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث اشتہاری ملزموں کے گروہوں نے عملاًاپنی حکومت قائم کر لی۔تھانہ شرقپور پولیس کی اشیرباد سے ان لٹیروں نے اپنی ہوس کی خاطر غریب گھرانوں کی جواںسال لڑکیوںسے نہ صرف انکے والدین کی موجودگی میںزیادتی کرنا بلکہ گھروں سے اٹھا لینا معمول بنا لیا۔یہ اشتہاری مجرم مظلوم خاندانوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیکر خاموش کر دیتے ہیں اور آواز بلند کرنے پربچوں کو اغوا کر لیتے ہیںاور سرعام تشدد کا نشانہ بنا کر گاﺅں سے نکال دیتے ہیںجبکہ کمزور لوگوں کے کھیتوں پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں اور ان کی کھڑی فصلیں کاٹ کر خود کھا جاتے ہیں۔علاقہ پولیس شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کرنے کی بجائے مدعیوں کو ملزموں کا خوف دلا کر مقدمات کی پیروی کرنے سے روک دیتی ہے اورملزموں کو گرفتار کرنے کی بجائے انھیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ان لوگوں کی بربریت اور دہشت سے علاقے کے تمام مردوخواتین بچے اوربوڑھے سب واقف ہیں مگر پولیس نے ان کی طرف سے اپنے کان بند کر بند کر لیے۔ لاہور سے جڑانوالہ روڈ پر صرف 28کلو میٹر دورشرقپور شریف کے نام سے ایک قدیم شہر واقع ہے کہ جہاں پر حضرت میاں شیر محمد جیسی مقدس ہستی کا مزار ایک عرصے سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے مگر ہماری بد قسمتی سے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنے کی دعویدار پولیس میں کرپشن بڑھ جانے کی وجہ سے شرقپور کا نواحی علاقہ بھی دیگر علاقوں کی طرح جرائم پیشہ لوگوں کی آمجگاہ بن گیا ۔شہریوں کی عزتوں کے محافظ جوان سال لڑکیوں کی عزتوں کے لٹیروں کے ساتھی بن گئے۔اگرچہ ضلع شیخوپورہ میںدیگر تمام ضلعوں کی نسبت سب سے زیادہ جرائم ہوتے ہیں مگر شرقپور کے نواحی علاقوں میں قانون کے اشتہاری ملزموں کے خوفناک اور بھیانک جرائم نے انسانیت کو بھی شرمندہ کر دیا اور سنجیدہ لوگوں کو قانون کی حکمرانی سے مایوس کر دیا۔شرقپور کے مغرب میں شاہ بخاری کے نزدیک ایک آبادی فقیراں والا کھوہ واقع ہے کہ جہاں پر اکثریت غریب اور کمزور لوگوں کی ہے جن کے مرد سارا دن محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کے پیٹ کی جہنم کو بجھاتے ہیں اور خواتین گھروں کے کام کاج میںمصروف رہتی ہیں۔اس آبادی کے قریب ہی ایک گاﺅںایہہ پور میں ذوالفقار ولد انور نامی ایک ملزم رہتاہے جو قتل،لوٹ مار اور زیادتیوں جیسے سنگین مقدمات میں نہ صرف علاقہ پولیس کو مطلوب ہے بلکہ قانون کے مطابق ایک اشتہاری مجرم بھی ہے ۔اس کے ساتھ ہر وقت اس کے دیگر جرائم پیشہ ساتھی بھی رہتے ہیں جن میںکاشف ولد مشتاق اور رزاق ولد غلام محمد وغیرہ بھی شامل ہیں ۔یہ لوگ علاقے میں دہشت کی علامت ہیں جن کے خوف اور بربریت سے غریب اور کمزور لوگ تھر تھر کانپتے ہیں ۔یہ لوگ شراب کے نشے میں دھت ہو کر مسلح ساتھیوں کے ساتھ قریبی دیہاتوں میں نکل جاتے ہیں اور غریب لوگوں کے گھروں میں زبردستی گھس کر اسلحہ کی نوک پر ان کی جوان سال بیٹیوں سے والدین کی موجودگی میں زیادتی کرتے ہیںمگر کوئی بھی شخص ان کے سامنے آواز بلند نہیں کرتا بلکہ جب یہ اشتہاری گاﺅں میں داخل ہوتے ہیں تو لوگ گلیوں اور راستوں سے بھاگ کر چھپ جاتے ہیں۔اسی گاﺅں میں ایک اعظم نامی شخص بھی رہتا ہے جن کا خاندان ایک عرصے سے ان اشتہاریوں کے ظلم کا شکار چلا آ رہا ہے۔یہ ملزم ان کے گھر میں داخل ہو کر اس کی جوان 22سالہ بہن سے والدین کی موجودگی میں زنا کرتے ہیں اور روکنے پر مار دھاڑ کرتے ہیں اس بات سے سارا گاﺅں واقف ہے مگر پولیس نے کبھی بھی ان کوگرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ ان کو مدعیوں کی شکایت سے مطلع کر دیتی ہے اور انھیں خاموش کر دینے کو کہتی ہے۔تقریباً24روز قبل ذوالفقار اپنے ساتھیوں کے ساتھ اعظم کے گھر آیا توگاﺅں کے لوگ انھیں دیکھ کر چھپ گئے جب یہ اعظم کے گھر داخل ہوئے تو اس کی بہن کسی کام سے اپنے کسی عزیز کے گھر گئی ہوئی تھی۔جب ملزموں کو (ش) نظر نہ آئی تو چیخ و پکار کرنے لگے اور رائفلوں کے بٹوں سے اہل خانہ کو مارنے لگے اسی اثناءمیں اعظم کی چھوٹی بہن15سالہ (گ) ہمسائے کے گھر سے اندر داخل ہوئی تو ملزموں نے اسے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ اپنے ڈیرے پر لے گئے اور ساری رات اس معصوم بچی کو یہ درندے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے اور صبح کے وقت اسے اس کے گھر پھینک گئے چنانچہ اعظم نے روز روز کے مرنے سے ایک روز مرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے علاقہ پولیس تھانہ شرقپور میں درخواست دے دی مگر وہی بات ہوئی کہ جس کاڈر تھا کہ علاقہ پولیس نے مظلوم خاندان کی دادرسی کرنے کی بجائے ان کی بات بھی سننے سے انکار کر دیا اور ملزموں کے خلاف کاروائی کرنے سے باز رہی چنانچہ اہل علاقہ کے بعض افراد کے ساتھ دینے پر اعظم نے سیشن کورٹ میں استغاثہ دائر کر دیا جس پر عدالت کے حکم پر پولیس نے مقدمہ درج کر لیا مگر ملزموں کے خلاف کاروائی کرنے سے صاف انکار کر دیا بلکہ اشتہاری مجرموں کو پولیس نے بتایا کہ ہم عدالت کے حکم پر پرچہ درج کرنے کے پابند تھے مگر اب تم انھیں مقدمے کی پیروی سے باز رکھو چنانچہ ان ملزموں نے اعظم کے گھر جا کر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور گاﺅں کا جو بھی فردان کی مدد کو آیا اس پر بھی تشدد کیا اور اعظم کے چھوٹے بھائی کاشف بعمر17سال کو اغوا کر کے لے گئے۔جس کی پولیس کو خبر دی گئی مگر پولیس نے نہ تو اغوا کا مقدمہ در
ج کیا اور نہ ملزموں کے خلاف کوئی کاروائی کی۔اب یہ خاندان گذشتہ22/23دن سے اپنا گھر بار چھوڑ کر در در بھٹک رہا ہے اور انصاف کے حصول کیلئے پولیس کے اعلیٰ حکام سے بھی مل چکا ہے مگر پولیس کے اعلیٰ حکام بھی انھیں انصاف دینے میں ناکام ہو گئے کیونکہ علاقہ پولیس سب اچھا کہہ کر اعلیٰ حکام کو خاموش کرادیتی ہے۔اس علاقے میں صرف اعظم کا خاندان ہی اکیلا ان کے ظلم کا شکار نہیں بلکہ بیسیوں گھرانے ان کے زیر عتاب آئے ہوئے ہیں مگر ان بااثر ملزموں کے خلاف پولیس کوئی کاروائی نہیں کرتی۔اسی طرح واڑہ ڈھولیکا جو اگرچہ تھانہ مانگا منڈی کی حدود میں آتا ہے مگر درمیان میں دریائے راوی کی وجہ سے علاقہ پولیس کااس علاقے پر کوئی اثر ورسوخ نہیں اور یہ شرقپور تھانے سے ملحقہ علاقہ ہے یہاں پر بھی انور لنڈ نامی شخص نے دریا کے اس کنارے پر اپنی حکومت قائم کی ہوئی ہے جولوگوں کی کھڑی فصلوں کو قبضے میں لیکر کاٹ لیتا ہے اور غریب لوگوں کے فصل کو مویشیوں سے تباہ و برباد کروا دیتا ہے اس کے خلاف بھی پولیس میں متعدد درخواستیں موجود ہیں مگرپولیس اس کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں کرتی۔علاقے کے لوگ ان گروہوں کی زیادتیوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور پھراس سے پہلے کہ کوئی مجبور اور کمزور لوگوں میں سے کوئی مرد نکل کر قانون اپنے ہاتھ میں لے پولیس کو چاہیے کہ وہ قانون کی حکمرانی اور علاقے میں کھوئی ہوئی اپنی ساکھ کو قائم کرے۔
اعظم کی بوڑھی دادی مختاراں بی بی اور والدہ مسرت بی بی نے کا کہنا ہے کہ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں اور ہمارے گھر کی یہ حالت ہے کہ بھائی بہنوں سے اور بہنیں والدین سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہے اورجب پولیس کے پاس جاتے ہیں تو افسر سے لیکر سپاہی تک چسکے لینے کی خاطر عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں اور بعد میں ہمیں ملزموں سے صلح کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور کوئی کاروائی نہیں کرتے۔اعظم نے بتایا کہ پہلے بھی ہم ان ملزموں کے خوف سے ڈیرھ سال تک اس گاﺅں میں نہیں آئے اور کرایہ پر دیگر علاقوں میں رہے مگر غربت ،تنگدستی اور معاشی حالات کی وجہ سے مجبور ہر کر پھر اپنے گھر میں آگئے مگر اب پھر24دن سے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ذولفقار اور اسکے ساتھیوں نے ہمیں کئی کا نہیں چھوڑا ۔ یہ لوگ ہم پر ظلم کرتے ہیں اور مقدمے کی پیروی سے باز رہنے کیلئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں انھوں نے میرے بھائی کو اغوا کر لیا اور پولیس نے پرچہ تک نہیں کاٹا۔انھوں نے بتایا کہ یہ ملزم اشتہاری ہونے کے باجود شہر میں گھومتے رہتے ہیں اور پولیس تھانے کا بھی چکر لگاتے رہتے ہیں۔جبکہ اس دوران اعظم کی بہن حسرت سے انصاف کی تلاش میں آسمان کی جانب نظریں کیے بیٹھی رہی اور اس کی آنکھوں سے نہ رکنے والا آنسوﺅں کا سیلاب جاری رہا۔اسی گاﺅں کے نیامت اور شوکت نامی اشخاص نے خبریں کو بتایا جب یہ لوگ اعظم کے خاندان پر ظلم کر رہے تھے تو ان کی والدہ اور بڑی بہن کو ہم نے اپنے گھر چھپا لیا جس کا بعد میں انھیں پتہ چل گیا تو ان لوگوں نے گاﺅں کے سارے لوگوں کی موجودگی میں ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا اور گاﺅں سے نکال دیا۔ محمد یوسف نے خبریں کو بتایا کہ انور لنڈنامی بدمعاش نے میرے کھیتوں پر قبضہ کر لیا اور میری کھری فصلیں تباہ کر دی جس پر میں نے علاقہ پولیس کو درخواست دی مگر کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
جب اس حوالے سے علاقے کے متعدد لوگوں سے ملاقات کی تو سب نے یہی بتایا کہ پورے علاقے کوان اشتہاریوں نے اپنی جاگیر بنایا ہوا ہے اور کسی بھی شخص کی عزت محفوظ نہیں مگر چونکہ پولیس جو خود کو شہریوں کی محافظ کہتی ہے اور ان ملزموں سے ملی ہوئی ہے اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی بلکہ ان سے اپنا حصہ وصول کر کے خاموش رہتی ہے چنانچہ ان ملزموں کے حوصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ذوالفقار کا والد پولیس کا مخبر رہ چکا ہے اور اس نے اپنے ایک دوست کو چند روپے کی خاطر قتل کر دیا تھا جبکہ ذوالفقار نے بھی دیگر کے علاوہ اپنے بھائی کو قتل کیا ہوا ہے ۔یہ لوگ تھانوں میں اب بھی آتے جاتے رہتے ہیں مگر پولیس نے کبھی بی انھیں گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی ۔لوگوں نے وزیر اعلی پنجاب سے پر زور اپیل کی ان علاقوں کو اشتہاریوں سے پاک کیا جائے اور غریب لوگوں کو ظلم وستم سے نجات دلوائی جائے ۔
تھانہ شرقپور کے ڈیوٹی آفیسراے ایس آئی اصغر علی بتایا کہ ان ملزموں کے خلاف اعظم کی شکایت پر پرچہ درج کر لیا ہے اور ملزموں کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ تفتیشی آفیسرمحمد اکرم سب انسپکٹر نے بتایا کہ ملزم بہت ہی خطرناک ہیں اور انھیں بڑی حکمت عملی سے گرفتار کرنا ہو گاکیونکہ نزدیک ہی دریائے راوی بہتا ہے اور یہ لوگ پولیس کو دیکھ کر دریا کے پار چلے جاتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ یہ معاملہ ڈی ایس پی فیروزوالا سے لیکر ڈی آئی جی اور آئی جی کے علم میں بھی ہے اور اگر اب ملزموں نے اعظم یا دیگر کسی فرد کو نقصان پہچانے کی کوشش کی تو قانون بڑی تیزی سے حرکت میں آئے گا اور ان سب کو گرفتار کر لیا جائے گا اور مظلوم خاندان کی دادرسی کی جائے گی۔
میاں جلیل احمد ایم این اے کے ترجمان محمد اشرف نے خبریں کو بتایا کہ میاں جلیل اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد گئے ہوئے ہیں اور وہ علاقے میں ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ ہیں انھوں نے متعدد بار پولیس کو بھی کہا مگر پولیس کسی کی بھی بات سننے کو تیار نہیں۔انھوں نے کہا کہ یہاں کے شہریوں کے ساتھ ظلم اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ پولیس ظالموں کے ساتھ مل چکی ہے اور مظلوموں کی بات نہیں سنی جاتی اور کوئی دادرسی کرنے والا نہیں ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.