میزائل کا کام

منصور مہدی


شمالی کوریا کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے کے اعلان کے بعد امریکہ نے اپنے میزائل شکن نظام کو متحرک بنا لیا ہے اور بش انتظامیہ تائی پوڈونگ میزائل کو بحرالکاہل پر تباہ کرنے کی تجویز پر غور کررہی ہے ۔ شمالی کوریا نے اگرچہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے اپنے بیلسٹک میزائل کے تجربے کی تیاریاں خفیہ رکھی ہوئی ہیں اس لئے ابھی تک میزائل کے ممکنہ تجربے کے اصل مقاصد معلوم نہیں ہو سکے کہ کیا یہ تجربہ خلاءکے لئے راکٹ لانچ کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے یا فوجی نوعیت کا ہے ۔ اس لئے پیانگ یانگ کے ممکنہ بیلسٹک میزائل کے تجربے کے جواب میں دیگر تجاویز کے ساتھ اسے بحرالکاہل پر تباہ کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے ادھر اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے مندوب کاکہنا ہے کہ ان کا ملک امریکہ سے اس سلسلے میں مذاکرات کیلئے تیار ہے تاکہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے اس بیلسٹک میزائل کے ممکنہ تجربے کے معاملے پر کشیدگی کو کم کیا جا سکے مگرپینٹا گون شمالی کوریا کے جواب میں میزائل سیکٹر کو قابل عمل بنانے میں مصروف ہے۔ امریکہ کے دفاعی میزائل نظام جن میں سے 11 انٹر سپیڈ میزائل میں سے 9 کو ریاست الاسکا میں فورٹ گریلے اور دو کو کیلفورنیا کے ونیڈن برگ ائیر فورس بیس پر نصب کردیا گیا ہے تا کہ شمالی کوریا کے میزائل کو انٹر سپیڈ میزائل کے ذریعے تباہ کیا جا سکے ۔ شمالی کوریا جس میزائل کے تجربے کی طرف جارہا ہے وہ امریکی علاقوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہے۔میزائل کی آزمائش کی خبروں کے بعد پیانگ یانگ پر مسلسل دباﺅ میں اضافہ ہو رہا ہے اور جنوبی کوریا کے سابق صدر کم ڈائیا جنگ نے شمالی کوریا کا دورہ منسوخ کردیا ہے جبکہ شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ میزائلوں کے تجربے کرنا اس کا حق ہے جیسا کہ امریکہ یا کسی دیگر ملک کو حق حاصل ہے۔مگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف امریکہ خود تو نہ صرف ایٹم اور ہائیڈروجن بم اور میزائل بنا رہا ہے بلکہ ناگاساکی اور ہیروشیما پر بم گرا کر لاکھوں انسان مار چکا ہے جبکہ عراق اور افغانستان میں بھی اپنے چھوٹی نوعیت کے ایٹمی ہتھیار عملی طور پر آزما رہا ہے مگر شمالی کوریا اور دیگر ممالک کو پرامن مقاصد کیلئے بھی ایٹمی قوت کو استعمال نہیں کرنے دیتا اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو امریکہ برطانیہ جیسے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ان کے خلاف کاروائی شروع کر دیتا ہے مگر یہ کب تک؟ شمالی کوریا کے میزائل کی آزمائش امریکی نگاہ میں بہت سنگین مسئلہ ہے جیسے ایران کا بجلی حاصل کرنے کیلئے یورینیم کی افزودگی مسئلہ ہے۔شمالی کوریا نے 1999 سے اب تک ایک خودساختہ پابندی کے تحت میزائل کا کوئی ٹیسٹ نہیں کیا لیکن اب اس نے ایک میزائل کا ایسا نیا ماڈل تیار کیا ہے جو امریکی ریاست الاسکا تک پہنچ سکتا ہے ٹائی پونگ ڈونگ 2نامی اس میزائل کی مار چھ ہزار کلو میٹر سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔
میزائل کیا ہے ؟ اس بارے میں کہا جا تا ہے کہ اس کی ابتدا جنگوں میں نیزے کی ایجاد سے ہی ہو گئی تھی جب میدان جنگ میں دشمن سے تلوار کے ساتھ لڑنے میں مارے جانے کے خوف نے دشمن سے دور رہ کر لڑنے کیلئے ایک نئے ہتھیار کی ایجاد کی ضرورت کو محسوس کیا اور ایسا ہی پہلی جنگ عظیم میں جب دشمن کے علاقے میں جا کر ہوائی جہازوں سے جا کر حملہ کرنے میں نقصانات بڑھتے لگے تو جہاز کے ساتھ ایک نئے ہتھیار کی ضرورت کو محسوس کیا گیا اور اس وقت کے جنگی سائنسدانوں نے میزائل ایجاد کیاجس کے ذریعے دور سے دشمن علاقے میں بم پھینکے جانے لگے۔موجود زمانے کی جنگوں میں ہوائی جہازوں سے زیادہ میزائل اہمیت اختیار کر چکے ہیں یہ سینکڑوں اور ہزاروں کلومیٹر سے آ کر اپنے منتخب شدہ نشانے کو تباہ و برباد کر سکتا ہے اس کے ذریعے نہ صرف عام روایتی بم پھینکے جا سکتے ہیں بلکہ ایٹم بم بھی پھینکے جا سکتے ہیں۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں امریکہ اور اس کے حلیفوں کے پاس اسی نوعیت کے جدید اور مہلک ہتھیار تھے جن کی وجہ سے انھوں نے یہ دونوں جنگیں جیتی اور مفتوح یورپ اور دیگر دنیا کے وسائل استعمال کیے۔امریکہ دیگر دنیا سے ہزاروں کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے خود کو اور اپنی عوام کو محفوظ سمجھتا تھا اور اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر ممالک کے عوام پر ایٹم بم بھی برسا دیتا تھامگر اب جب ایٹمی ٹیکنالوجی اور میزائل ٹیکنالوجی عام ہونے لگی اور دیگر ممالک بھی اس میدان میں آگے بڑھنے لگے تو امریکہ کو اپنا قلعہ غیر محفوظ لگنے لگا۔شمالی کوریا کے میزائل ٹیسٹ پر امریکہ کا ردعمل اسی خوف کا نتیجہ ہے کیونکہ کسی اور ملک کو نہ سہی مگر امریکہ کو تو ایٹمی تباہی کا یقینا احساس ہے کیونکہ اس نے تو دو شہروں کو اپنے نوزائیدہ ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹتے دیکھا ہے جبکہ اب تو ایٹمی ٹیکنالوجی 1940کے عشرے سے کہیں زیادہ ایڈوانس ہو چکی ہے۔
میزائل بظاہر ایک بڑا سا گول پائپ ہوتا ہے جس میں راکٹ کے انجن لگے ہوتے ہیں اور جو بہت تیزی سے سفر کرتا ہے اس کا سفر سینکڑوں کلو میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے ہوتا ہے ۔اس کے انجن ٹھوس ایندھن اور مائع ایندھن سے چلتے ہیں اور یہ لانچ کرنے کے بعد فضا میںعمودی سفر کرتا ہے اور چند ہی سیکنڈ میں دو سو سے تین چار سو (میزائل کی نوعیت کے مطابق)کلو میٹر فضا میں جا کر اپنے منتخب شدہ ہدف کی طرف رخ کر لیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے قہر بن کر اپنے ہدف پر گر جاتا ہے اور اس کے اگلے حصے میں لگے ہوئے بم(وارہیڈ)پھٹ جاتے ہیں اور تباہی پھیلا دیتے ہیں۔میزائل دیگر ہتھیاروں جیسے توپ ، رائفل اور جہاز کے بموں کی نسبت زندہ ہتھیار سمجھا جاتا ہے جو نہ صرف اپنے راستے اور ہدف کو تلاش کرتا ہے بلکہ وقت ضرورت خود کشی بھی کر لیتا ہے۔جب کسی فنی خرابی کی وجہ سے میزائل اپنے ہدف کو تلاش نہیں کرپاتا یا راستے کا تعین کرنے میں دقت محسوس کرتا ہے اور جبکہ اس کے پاس وقت بھی بہت کم ہوتا ہے تو ایسے میں یہ خود کشی کر لیتا ہے اور زمین پر گرنے سے پہلے ہی فضا میں پھٹ جاتا ہے۔
میزائلوں کی کئی اقسام ہیں ۔ان میں ایک فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل (اے اے ایم) ہے جو ایک جہاز سے دشمن کے جہاز کو گرانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔یہ گائیڈڈ میزائل بھی کہلاتا ہے اور اس میں راکٹ موٹر لگی ہوتی ہے جس میں ٹھوس ایندھن استعمال کیا جاتا ہے لیکن اب فضا سے فضا میں مار کرنے والے ایسے میزائل بھی بن چکے ہیں جن میں عام لیکوڈ ایندھن استعمال ہوتا ہے۔یہ میزائل دوسرے جہاز سے نکلنے والے دھوئیں اور حرارت سے اپنے ہدف کا تعین کرتے ہیں۔دوسری قسم فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل ( اے ایس ایم یا اے جی ایم )کی ہے جو جنگی جہاز سے زمین پر یا سمندرمیں واقع کسی ہدف کو نشانہ بناتا ہے ۔اس میں بھی راکٹ موٹر یا جیٹ انجن استعمال کیا جاتا ہے۔یہ لانگ رینج اور شارٹ رینج بھی ہوتے ہیں جبکہ اس ضمن میں روسی میزائل سب سے زیادہ تیز رفتار اور دور ہدف پر پہنچنے والے سمجھے جاتے ہیں۔اس قسم کے میزائل اپنے نشانے کا تعین لیزر گائیڈنس سسٹم کے علاوہ انفراریڈ گائیڈنس سسٹم ،آپٹیکل گائیڈنس اور جی پی ایس سنگنلز کے ذریعے کرتے ہیں۔ان سسٹم کا اطلاق ہدف کی نوعیت پر ہوتا ہے۔سمندر میں واقع ہدف کیلئے آپٹیکل سسٹم یعنی ریڈار کے ذریعے کیا جاتا ہے جبکہ زمینی ہدف کیلئے دیگر سسٹم سے کام لیا جاتا ہے۔ اسی نوعیت کے میزائل فضا سے زمین پر استعمال کرنے کے ساتھ زمین سے زمین پر مار کرنے کیلئے بھی استعمال ہوتے ہیں اگرچہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل کو میزائلوں کی تیسری قسم کہا جاتا ہے۔ٹوماہاک میزائل فضا سے زمین پر مار کرتا ہے جبکہ اے جی ایم86،اے جی ایم84ہارپون دونوں مقاصد کیلئے استعمال ہوتے ہیں جبکہ یہ سمندری ہدف کے علاوہ زمینی ہدف پر مار کرنے میں استعمال ہو سکتے ہیں۔اسی نوعئت کے میزائلوں میں ایک اور قسم اینٹی ٹینک میزائل کی ہے جو زیادہ تر میدان جنگ میں دشمن کے ٹینکوں کو تباہ کرنے کیلئے ہیلی کوپٹر سے استعمال کیے جاتے ہیں۔کروزمیزائل ، اینٹی شپ میزائل اور اینٹی ریڈار میزائل بھی اسی قسم کے میزائلوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔جبکہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل فضا میں موجود دشمن کے جہازوں کو گرانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں یہ میزائل انفراریڈ لیز سسٹم پر کام کرتے ہیں۔سٹنگر میزائل بھی اسی نوعیت کا ہے ۔اس کو انسانی کندھے پر رکھ چلایا جا سکتا ہے ۔ میزائلوں کی چوتھی قسم بلاسٹک میزائل(بی ایم) ہے جس میں نیوکلیر ،کیمیکل یا بائیولوجیکل اور روایتی وارہیڈ استعمال کیے جاتے ہیں اور عموما دور فاصلے پر موجود ہدف کو تباہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ان میں انٹر کانٹینینٹل بلاسٹک میزائل (آئی سی بی ایم )بھی شامل ہیں جو ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک مار کرتے ہیں۔ شمالی کوریا کا زیر بحث میزائل جس کا تجربہ ا بھی ہونے والا ہے وہ بھی انٹر کانٹی نینٹل میزائل میں شمار ہوتا ہے۔پہلا بلاسٹک میزائل A-4تھا جسے وی ٹو راکٹ بھی کہا جاتا تھا اور یہ1930اور1940کے درمیانی عرصے میں جرمنی نے بنانے شروع کیے تھے جبکہ اسکا استعمال پہلا کامیاب حملہ3اکتوبر1942،دوسرا کامیاب حملہ 6ستمبر1944کو پیرس پر ہوا اور مئی1945کو لندن پر بھی اسی میزائل کے ذریعے حملے کیے گئے۔دوسری جنگ عظیم میں3000کے قریب اس نوعیت کے میزائل ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیے گئے۔ یہ میزائل تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔بلاسٹک میزائل فکسڈ اور موبائل پلیٹ فارموں سے لانچ کیے جا سکتے ہیں۔ان کو زمین کے علاوہ ہوائی جہاز ، بحری جہاز اور آبدوز سے بھی فائر کیا جا سکتا ہے۔ ان میںشارٹ رینج بلاسٹک میزائل (ایس آر بی ایم )ایک ہزار کلو میٹر تک مار کرتے ہیں۔ وی ٹو راکٹ ، سکڈ اور SS21شارٹ رینج میزائل میں شمار ہوتے ہیں۔میڈیم رینج بلاسٹک میزائل ایک ہزار سے دو ہزار پانچ سو کلو میٹر تک مار کرتا ہے۔انٹر میڈیٹ رینج بلاسٹک میزائل ڈھائی ہزار کلومیٹر سے تین ہزار پانچ سو کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کرتا ہے ۔ سب کانٹی نینٹل میزائل پینتیس سو کلومیٹر سے چار ہزار پانچ سو کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کرتا ہے جبکہ انٹر کانٹی نینٹل بلاسٹک میزائل پینتالیس سو کلو میٹر سے زائد چھ ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے۔لمیٹڈ رینج انٹر کانٹی نینٹل بلاسٹک میزائل (ایل آر آئی سی بی ایم )آٹھ ہزار کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کرتا ہے جبکہ فل رینج انٹر کانٹی نینٹل بلاسٹک میزائل (ایف آر آئی سی بی ایم )بارہ ہزار کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے ۔ میزائلوں کی پانچویں قسم اینٹی بلاسٹک میزائل (اے بی ایم)کی ہے۔جو بلاسٹک میزائل کو تباہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ایسے دنیا میں ابھی صرف دو سسٹم موجود ہیں ایک امریکہ کا سیف گارڈ سسٹم جو ایل آئی ایم49Aسپارٹن اور سپرنٹ میزائلوں پر انحصار کرتا ہے اور دوسرا روس کا نظام(اے35سسٹم)ہے۔امریکی نظام سیف گارڈ کی نسب روس کا A35نظام زیادہ موثر اور آپریشنل حالت میں ہے ۔جبکہ امریکہ کا ایسا ہی دوسرا نظام زمینی مڈکورس ڈیفنس(جی ایم ڈی) ہے جس کو پہلے این ایم ڈی نظام کہا جاتا تھا اور یہ ابھی حال ہی میںابتدائی سطع پر آپریشنل ہوا ہے۔ جبکہ ان کے علاوہ امریکہ کا ہی پیٹریاٹ ، نیوی کا کمبٹ سسٹم اور اسرائیل کا ایرو نظام بھی اسی نوعیت کے ہیں مگر یہ بھی ابھی ابتدائی سطع کے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ میں سابق صدر ریگن کے سٹار وارز نامی دفاعی نظام کو بیس برس بعد جارج بش کے حکم پر دوبارہ شروع ہے اس نظام کے تحت 2004تک الاسکا کے علاقے میں دس انٹرسیپٹر میزائیل نصب کیے جا چکے ہیںجو امریکہ کی طرف آنے والے کسی میزائیل کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جبکہ اسی طرح بعد میں دس مزید انٹرسیپٹر نصب ہوں گے جن میں زمی
ن اور سمندر سے مار کرنے والے میزائیل اور خلاءمیں قائم سینسر بھی شامل ہوں گے۔امریکہ اب تک اس نوعیت کے آٹھ تجربے کر چکا ہے جن میں سے تین ناکام رہے اور پانچ کامیاب ہوئے۔ اسی طرز پر انٹی سیٹلائٹ میزائل ہے جو زمین سے خلا میں مار کرتا ہے۔ان کے علاوہ دنیا میں دیگر نوعیت کے میزائل بھی موجود ہیںجن میں ابدالی ،غوری I، غوری II، غوری III، غزنوی ، حتف I، کندور، جیریکو، ایم فائیو، ایم 45، ایم 51، نوڈونگ ، پیس کیپر ، پلو ٹن ، پلورس ، پوسی ڈین ، پرتھوی ، سکڈ ، شہاب 3، شہاب فور ، شہاب فائیو، شاہین ، سکائی بولٹ ، ائیر لانچڈ بلاسٹک میزائل ، ایس ایس 18، ایس ایس 24، تائی پو ڈنگ I،تائی پوڈنگ 2، ٹرائی ڈینٹ ، اگنی، وی ٹو، انزا ، بکتر شکن، بابر ، حسین ، سٹینگر، دھنش۔
پاکستان کا حتف 7یا بابر نامی میزائل کروز میزائل زمین سے زمین اور زمین سے سمندر میں مار کرنے والے میزائل کی قسم کا ہے جو ہر طرح کے جوہری اور روائتی وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی رینج پانچ سو کلومیٹر ہے۔ بابر میزائل کی نشاندہی کسی بھی ریڈار سسٹم یا دفاعی سسٹم پر نہیں ہو سکتی اور اس میزائل کو زمین کے علاوہ جنگی کشتی، آبدوز اور ہوائی جہاز کے ذریعے بھی پھینکا جا سکتا ہے اور یہ پاکستان کے سرکردہ سائنسدانوں اور انجینئر وں کی کاوش کا نتیجہ ہے۔پاکستان نے سب سے دور مار کرنے والے میزائل شاہین ٹو کا بھی تجربہ کیا ہوا ہے اور یہ میزائل جوہری وارہیڈ داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شاہین ٹو، دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور متعدد بھارتی مقامات تک باآسانی پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شاہین میزائل کو پاکستان میں سب سے اہم بلاسٹک میزائل گردانا جاتا ہے۔ جبکہ غوری ،حتف اورانزہ میزائل بھی موجود ہے ۔یہ زمین سے فضا ،زمین سے زمین اور اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل ہیں۔
زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی سیریز میں سب سے زیادہ خطرناک میزائل روسی ساختہ اگلا نامی میزائل ہے جو کچھ ہی عرصہ قبل ایک برطانوی سوداگر نے امریکہ میں بھی اسمگل کیا تھا۔ اس میزائل کے ذریعہ امریکی صدر بش کے طیارے ’ایئرفورس ون‘ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔اِگلا میزائل ان جدید ہتھیاروں کی اس قسم سے تعلق رکھتا ہے جو زمین سے فضا میں مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ دس ہزار فٹ کی بلندی تک اڑنے والی ہر چیز کو تباہ کر سکتا ہے۔یہ میزائل بوسنیا کی جنگ کے دوران بھی استعمال کیے گئے تھے۔جبکہ دو سال قبل چیچنیا میں ایک روسی فوجی جہاز کو مار گرایا گیا تھا جس میں ایک سو اٹھارہ روسی فوجی سوار تھے۔ خیال ہے کہ اس جہاز پر بھی اِگلا میزائل ہی داغا گیا تھا۔اِگلا میزائل روسی ساختہ ہے اور اس کی فروخت 80 اور90 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ یہ جہاز کے انجن سے خارج ہونے والی گرمائش کا پیچھا کرتے ہوئے اپنے شکار کو جا لیتا ہے۔اسی نوعیت کے امریکی میزائل سٹنگر ہے جو افغان روس جنگ میں آزمائے گئے۔اب بھی افغانستان میں سینکڑوں سٹنگر میزائل موجود ہیںجو جنگ کے دوران امریکہ نے روسی طیاروں کو گرانے کیلئے سٹنگر اور دیگر نوعیت کے راکٹ، بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مادے سمیت طرح طرح کے ہتھیار وار لارڈز کے حوالے کیے تھے۔ بعد میں امریکہ نے ان میزائلوں کو مجاہدین سے بھاری قیمت پر واپس خریدنے کی کوشش بھی کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی اور اب بھی افغانستان میں سو کے قریب سٹنگر میزائل موجود ہیں۔ بلکہ ابھی حال ہی میں افغانستان میں بین الاقوامی حفاظتی فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انہیں امریکہ میں بنے سٹنگر میزائل اور راکٹ فروخت کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ جنرل اکِن زورلو± نے کہا کہ انکے فوجیوں کو سٹنگر میزائل دو لاکھ ڈالر اور راکٹ پانچ سے دس ہزار ڈالر کی شرح سے فروخت کئے جانے کی پیشکش کی گئی۔ ان کے خیال میں حالیہ دنوں میں کابل پر راکٹ حملوں میں اضافہ ڈیلروں کی طرف سے بین الاقوامی امن فوجیوں پر راکٹ خریدنے کے لئے دباو¿ ڈالنے کا حربہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کابل میں صحافیوں کو بتایا تھاکہ تقریباً ہر ایسے واقع کے بعد انہیں ہتھیاروں کی فروخت کی پیشکش ہوتی رہی۔ امن فوج کے ایک اڈے پر ایک ہفتے کے دوران کم از کم چھ راکٹ داغے گئے۔
ایران کا شہاب سوئم میزائل زمین سے زمین پر مار کرنے والا بیلاسٹک میزائل ہے ۔یہ تیرہ سو کلو میٹر دور تک مار کرتا ہے ۔یہ میزائل 1998میں تیار کیا گیا تھا جس کا تجربہ ابھی حال ہی میں کی گئی ہے جو اسرائیل تک پہنچ سکتا ہے۔جبکہ اسرائیل کے پاس بھی بیلاسٹک میزائلوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے ۔جیریکو Iاور جیریکوII نہ صرف ایران بلکہ تمام اسلامی دنیا اور ایشیا کے دیگر ممالک تک مار کر سکتا ہے۔فرانس کے ایم فور اورایم 45بیلاسٹک میزائل چار ہزار اور پانچ ہزار تین سو کلو میٹر تک پہنچتے ہیں۔ بھارت کا بیلاسٹک پرتھوی 150سے250کلومیٹر جبکہ اگنی دو ہزار پانچ سو کلو میٹر تک پہنچتا ہے۔روس کا ایس ایس 18گیارہ ہزار، ایس ایس 19دس ہزار، ایس ایس 24دس ہزار، ایس ایس 25دس ہزار پانچ سو، ایس ایس این18چھ ہزار پانچ سو، ایس ایس این 20آٹھ ہزار تین سوکلو میٹر تک مار کرتے ہیں۔برطانیہ کا ٹرائیڈینٹ D5بارہ ہزار کلو میٹر تک پہنچ سکتا ہے۔ امریکہ کا ایل جی ایم 30G تیرہ ہزار ، ایل جی ایم118نو ہزار چھ سو، یو جی ایم 93Aسات ہزار چار سو، یو جی ایم133Aبارہ ہزار کلو میٹر تک مار کر سکتے ہیں۔
اب میزائل ٹیکنالوجی عام ہو چکی ہے اور دنیا کے پچاس سے زائد ممالک کے پاس یہ کسی نہ کسی نوعیت کی موجود ہے جبکہ میزائل بھی دیگر عام ہتھیاروں کی طرح ایک دوسرے ممالک سے خریدے جا سکتے ہیں ۔یہ بھی ہتھیار تیار کرنے والے اداروں کی ایک مہنگی اور جدید پراڈکٹ ہے اور ان کو بہتر سے بہتر بنانے کا عمل بھی جاری ہے ۔پہلی جنگ عظیم میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے میزائلوں کے حصول کی شروع کی ہوئی لڑائی اب اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ اس کو روکنا اب بہت ہی مشکل ہو گیا ہے۔اگر امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے میزائلوں کی تیاری ترک کر دیں اور برابری کی سطح پر بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھے تو تب شاید دیگر ممالک بھی اس نوعیت کے اپنے ہتھیار بنانے چھوڑ دیں کیونکہ دھمکیوں اور لڑائیوں سے یہ باتیں ختم نہیں ہوتی بلکہ مزید شدت اختیار کر جاتی ہیں۔


3 تبصرے:

  1. [...] مختلف بنکوں کی جانب سے عوام کی سہولت کے پیش نظر اور خریداری کیلئے جاری کئے جانے والے کریڈٹ کارڈوں پر"ہیکروں"نے انٹرنیٹ کے ذریعے وسیع پیمانے پر فراڈ شروع کر دیا اور لوگوں کے کریڈٹ کارڈوں سے لاکھوں روپے کی خریداری کر ڈالی جس کا کریڈٹ کارڈ ہولڈروں کو بھی علم نہ ہوسکا جبکہ کریڈٹ کارڈ سسٹم کوہیکروں سے محفوظ بنانے کیلئے الیکڑونک کرائم یونٹ اور سائبر کرائم ونگ جیسے سرکاری ادارے بھی کوئی مناسب اقدامات نہ کرسکے جس بنا پر فراڈیے ہیکر مسلسل لوگوں سے فراڈ کرنے میں مصروف ہیں [...]

    جواب دیںحذف کریں
  2. [...] مختلف بنکوں کی جانب سے عوام کی سہولت کے پیش نظر اور خریداری کیلئے جاری کئے جانے والے کریڈٹ کارڈوں پر"ہیکروں"نے انٹرنیٹ کے ذریعے وسیع پیمانے پر فراڈ شروع کر دیا اور لوگوں کے کریڈٹ کارڈوں سے لاکھوں روپے کی خریداری کر ڈالی جس کا کریڈٹ کارڈ ہولڈروں کو بھی علم نہ ہوسکا جبکہ کریڈٹ کارڈ سسٹم کوہیکروں سے محفوظ بنانے کیلئے الیکڑونک کرائم یونٹ اور سائبر کرائم ونگ جیسے سرکاری ادارے بھی کوئی مناسب اقدامات نہ کرسکے جس بنا پر فراڈیے ہیکر مسلسل لوگوں سے فراڈ کرنے میں مصروف ہیں [...]

    جواب دیںحذف کریں
  3. کروز میزائل ٹیکنالوجی پاکستان نے چائنا کو دی ۔ اسامہ ریڈ میں گرنے والا ھیلی کاپٹر سٹ لیتھہ تیکنالوجی پاکستان نے چائنا کو دی اور ڈالر تو ھم دے ھی رھے ھیں ۔چھوٹے قد والے چائنا اور جاپان کے لوگ بیوقوف نہیں کہ پاکستان کو دوست بنا لیا بلکہ ایشاء خاص کر پاکستان سے ڈالر کے ذخیرے ایکسپورٹ کے ذریعے چین لے گیے
    ——————————————————————————————
    “پاک چین دوستی وانگ سوئے ٗ یہ نعرہ میں نے ٹی وی پر جنرل ضیاالحق کے دور میں چین کے صدر
    کے دورہ پاکستان کے موقع پر سنا ۔ مگر سنو پاکستان کی معاشی تباھی کا کیا ھوگا ۔ صرف میزائل ٹیکنالوجی اور مل کر طیارے بنانے میں عوام کا پیٹ کیسے بھرے گا ۔ ڈالر کا انخلاء کیسے رکے گا
    ————————-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کوئی ھے حکمران — ایسا جو چین سے اس کا حساب لے سکے کہ وہ تو امریکہ کو ڈالر قرض دے رھا ھے اور ھمیں
    غریب سے غریب تر ملک بنا دیا ھے اور اگر اس اشو کو میڈیا نے نہ اٹھایا تو حالات مزید بدتر ھوں گے
    ———————————————————–
    خدارا خدارا میڈیا کے لوگوں سے گزارش ھے کہ اس مسلئہ کا اٹھائیں ۔ دوستی آڑ میں جو ھمیں لوٹا جا رھا ھے اس سے بچائیں
    —————————————-
    بچپن سے لیکر آج تک مجھے پاک چین دوستی پر فخر رھا آج بھی ھے ۔ لیکن
    چین سپر پاور بن گیا اور پاکستان رل گیا
    ارے بھائی پاکستان کیسے رل گیا اور اس میں چین کا کیا قصور ھے؟
    ————————————————————-
    پاکستان کے کسی بازار میں چلے جائیں 90 فیصد اشیاء میڈ ان چین ھیں ۔ یعنی چائنا کی بنی ھوئی ۔
    پاکستان کی ماکیٹ پر چائنا حاوی ھے اور اس کا مال بکتا ھے ھماری انڈسٹری بند اور روزگار ختم
    مگر سب سے خوف ناک بات یہ کہ چائنا پے منٹ صرف ڈالر میں لیتا ھے اس طرح پاکستانی سے اتنے سالوں سے ھر ماہ کروڑوں ڈالر شفٹ ھو جاتا ھے ۔ جس کی وجہ سے پاکستان ھر سال عالمی بنک سے نئے قرضے لیتا ھے
    اس لیے پاکستانی کرنسی کا ریٹ دن با دن گرتا جارھا ھے
    ——————————————————–
    90 فیصد سامان پاکستان کی مارکیٹ میں چائنا کا ھے اور اور چائنا پے منٹ صرف ڈالر میں قبول کرتا ھے
    میری گھڑی ماوس لیپ ٹاپ پرنٹر ڈورلاک کراکری چائنا کی ھے یا اللہ میں کیا کروں
    سوری بھائیو میں بھول گیا معافی چاھتا ھوں
    موبائل ۔نیٹری چارجر۔ ٹیبلٹ ۔موٹر سائیکل ۔ بچے کے کھلونے میڈیسن ۔ ایل سی ڈی ۔ ایمرجنسی لائٹ ۔ جوسر ۔ پلاس ۔ نیل کٹر ۔ وغیرہ سب چین کے بنے ھیں
    یا اللہ میں کیا کروں ان چیزوں سے کیسے بچوں ملک سے ڈالر تیزی سے ان اشیاء کے بدلے چین جا رھا ھے اور میں ان اشیاء کا عادی ھو چکا ھوں یہ سب سہولت نہیں ھماری ضرورت بن گئی ھیں ۔
    —————————————————————–
    90 فیصد سامان پاکستان کی مارکیٹ میں چائنا کا ھے اور اور چائنا پے منٹ صرف ڈالر میں قبول کرتا ھے۔
    —————————————————————–
    پاکستان میں سامان آئے تو سامان کے بدلے یا مال کے بدلے پاکستانی روپے میں پے منٹ ھو ۔
    حکیم ارشد ملک
    http://www.sayhat.net

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.