غریب گھرانے سے قدس فورس کی کمان تک



62 سالہ قاسم سلیمانی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور انھوں نے واجبی سی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی لیکن پاسدارانِ انقلاب میں شمولیت کے بعد وہ تیزی سے اہمیت اختیار کرتے گئے۔
1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ میں قاسم سلیمانی نے اپنا نام بنایا اور جلد ہی وہ ترقی کرتے کرتے سینیئر کمانڈر بن گئے۔
1998 میں قدس فورس کے کمانڈر بننے کے بعد سلیمانی نے بیرونِ ملک خفیہ کارروائیوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اثر میں اضافہ کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے اتحادی گروہوں کو ہر ممکن مدد فراہم کی اور ایران سے وفادار ملیشیاؤں کا ایک نیٹ ورک تیار کر لیا۔
کہا جاتا ہے کہ اپنے کریئر کے دوران قاسم سلیمانی نے عراق میں شیعہ اور کرد گروپوں کی سابق آمر صدام حسین کے خلاف مزاحمت میں مدد کی جبکہ وہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطینی علاقوں میں حماس کے بھی مددگار رہے۔
2003 میں عراق پر امریکی جارحیت کے بعد انھوں نے وہاں سرگرم گروپوں کی امریکی اڈوں اور مفادات کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں رہنمائی بھی کی۔
انھیں اس بات کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے کہ انھوں نے شام کے صدر بشارالاسد کو ان کے خلاف 2011 میں شروع ہونے والی مسلح مزاحمتی تحریک سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی بھی بنا کر دی۔ ایران کی اس مدد اور روسی فضائی مدد نے ہی بشارالاسد کو باغی فوج کے خلاف جنگ میں پانسہ پلٹنے میں مدد دی۔
قاسم سلیمانی کو خود کئی بار ایسے ایرانی افراد کے سفرِ آخرت میں شریک دیکھا گیا جو شام اور عراق میں مارے گئے تھے۔
اپریل 2019 میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے قاسم سلیمانی کی قدس فورس اور ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا اور الزام لگایا کہ قدس فورس لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین اسلامک جہاد سمیت ایسے گروہوں کی مشرقِ وسطیٰ میں مدد کے لیے ایران کا بنیادی ڈھانچہ ہے، جنھیں امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے اور یہ فورس انھیں مالی مدد، تربیت، ہتھیار اور آلات فراہم کرتی ہے۔
اپنے بیان میں امریکی محکمۂ دفاع نے قاسم سلیمانی کا نام لے کر کہا کہ وہ ’عراق اور پورے خطے میں امریکی سفارتی عملے اور امریکی فوجیوں پر حملوں کے منصوبے بنانے میں سرگرم رہے ہیں۔‘
ایران اور امریکہ کے تعلقات امریکہ کی جانب سے ایران اور عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد سے تنزلی کا ہی شکار ہیں اور ان کی موت ایران اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان جاری بڑے بحران میں ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔
اس قدم پر ردعمل آنا یقینی ہے اور اس سے حالات مزید خراب ہوں گے اور یہ خطہ ایک مزید خطرناک راہ پر چل سکتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.