ایران میں ہیرو، امریکہ کے لیے ولن: جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟




ایران میں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد اگر کسی شخصیت کو طاقتور سمجھا جاتا تھا تو وہ جنرل قاسم سلیمانی ہی تھے۔
پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ کے طور پر سلیمانی مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ملک کی سرگرمیوں اور عزائم کے منصوبہ ساز اور جب بات امن یا جنگ کی ہو تو ایران کے اصل وزیرِ خارجہ تھے۔
انھیں شام کے صدر بشارالاسد کی ملک میں باغیوں کے خلاف جنگ، عراق میں ایران نواز شیعہ ملیشیاؤں کے عروج، شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ کے علاوہ اور بہت سے کارروائیوں کا معمار بھی سمجھا جاتا تھا۔

وہ عموماً شہرت کی چکاچوند سے دور رہنے والی شخصیت سمجھے جاتے تھے تاہم حالیہ برسوں میں وہ کھل کر سامنے آئے جب انھیں ایران میں ان کی داعش کے خلاف کارروائیوں کی بدولت شہرت اور عوامی مقبولیت ملی۔
وہ شخص جنھیں چند سال پہلے تک بہت سے ایرانی شہری راہ چلتے پہچان نہیں سکتے تھے، دستاویزی فلموں، ویڈیو گیمز، خبروں اور پاپ گیتوں کا موضوع بن گئے۔
عراق کے شیعہ ملیشیا جنگجوؤں کی جانب سے تیار کردہ ایک میوزک ویڈیو ایران میں بہت زیادہ پسند کی گئی جس میں سپاہیوں کو دیوار پر جنرل سلیمانی کی تصویر سپرے سے پینٹ کرتے اور اس کے سامنے پریڈ کرتے دکھایا گیا جبکہ ان مناظر کے پس پردہ جذباتی موسیقی شامل کی گئی تھی۔
ساتھ ہی جنرل سلیمانی کا ایران کے خارجہ امور میں کردار مزید ابھر کر سامنے آیا۔ وہ اب فون لائن کی دوسری طرف پائے جانے والے ایک چھپی ہوئی شخصیت نہیں تھے۔
2013 میں سی آئی اے کے سابق اہلکار جان میگوائر نے امریکی جریدے دی نیویارکر کو بتایا تھا کہ سلیمانی ’مشرقِ وسطیٰ میں سب سے طاقتور کارندے تھے۔‘
بی بی سی فارسی کی ایک دستاویزی فلم کے لیے ایک انٹرویو میں عراق میں سابق امریکی سفیر رائن کروکر نے بھی کہا تھا کہ جنرل سلیمانی کا بغداد مذاکرات میں اہم کردار تھا۔
رائن کروکر کے مطابق انھوں نے جنرل سلیمانی کے اثرو رسوخ افغانستان میں بھی محسوس کیا تھا جب وہ بطور امریکی سفیر افغانستان میں تعینات تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا 'افغانستان کے حوالے ایران میں میرے باہمی میل جول کے لوگوں نے مجھ پر واضح کیا کہ وہ وزارت خارجہ کو مطلع رکھیں گے، آخرَکار وہ جنرل سلیمانی ہی تھے جنہیں فیصلے لینے تھے۔'
کرشماتی شخصیت کے مالک سمجھے جانے والے جنرل سلیمانی کو جہاں پسند کرنے والے بہت تھے وہاں ناپسند کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی اور ان کے شخصیت کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کرتی تھیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.